اِس مقصد سے دوری کے بعد انسان خواہ کوئی بھی عمل کرلے، کوئی بھی ایجاد کرلے، سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرلے یا چاند پر ٹھکانہ کرلے مگر وہ ہر آن انسانیت سے دور ہوتا جائے گا، نہ وہ اپنے خدا سے قریب ہوسکے گا، نہ وہ اپنی زندگی کی شب تاریک کو سحر کرسکے گا اور نہ وہ کسی کامیابی سے ہم کنار ہوسکے گا۔
مقصد حیات سے دوری اور اللہ سے قطع تعلق کی صورت میں انسان اس وقت کائنات کی سب سے بدترین مخلوق رہتا ہے، اور آخرت میں بھی وہ سب سے زیادہ رسوا ہوگا۔
اورمقصد حیات پر مضبوطی سے جماؤ اور اللہ سے تعلق کے نتیجہ میں انسان اس کائنات کی اشرف ترین مخلوق ہوتا ہے اورآخرت کی ساری نعمتوں سے بھی سب سے زیادہ وہی بہرہ مند ہوگا۔
مقصد حیات پر جماؤ اسی صورت میں پیدا ہوگا جب ان اوصاف کا مصداق بننے سے اپنے کو بچایا جائے جو قرآن کے حوالہ سے آغاز میں ذکر کئے گئے، ہماری مشکل یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات سے ہمارا عمل بالکل مختلف ہے اوریہی دین ودنیا میں ہماری پسماندگی کا سبب ہے، اقبال کے بقول مسلمانوں کے دلوں میں اب زندگی کا شرارہ گل ہورہا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق ختم ہوچکا ہے: ؎
در دلِ او آتشِ سوزندہ نیست
مصطفی در سینۂ او زندہ نیست
اور اس افسوسناک صورتحال کا خاتمہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں ، ناامیدی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ہاں شرط یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت کے مطابق ایمان، عمل صالح، صبر وحق کی تلقین کے وہ اوصاف اختیار کرلئے جائیں جو ہر خسارہ سے نجات کے ضامن ہیں ؎
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی
mvm