(۳) کافروں سے جہاد:
اہلِ کفر وباطل اہل حق کے دشمن ہوتے ہیں ، اہل ایمان کو ان سے جہاد کا حکم ہے، مگر مرحلہ بندی کردی گئی ہے، سب سے پہلے دعوتی وقرآنی جہاد کرنا ہے یعنی افہام وتبلیغ، یہ بے اثر ہو تو دوسرا مرحلہ عملی جہاد کا ہے اور کفرکی طاقت کو ختم کرنے کا ہے، دعوتی جہاد تو ہر جگہ اور ہر حالت میں ہوسکتا ہے، عملی جہاد کے لئے یہ شرط ہے کہ اہل ایمان مقابلے کی پوزیشن میں ہوں ، ورنہ اگر اہل ایمان بالکل کمزور ہوں تو مکی زندگی کا صبر وثبات نمونہ کے طور پر موجود ہے۔
(۴) منافقوں سے جہاد:
اہل حق کے لئے سب سے خطرناک اور زہریلا گروہ مارِ آستین منافقوں کا ہوتا ہے جن کے ظاہر وباطن میں تضاد ہوتا ہے، وہ زبانی مدعئ ایمان ہوتے ہیں ، مگر ان کے دل کفر سے لبریز ہوتے ہیں ، ان کے اندر بے حد مکر وغدر کے اوصاف ہوتے ہیں ، اور وہ فتنہ واختلاف بھڑکانے کے عادی ہوتے ہیں ، ساتھ ہی وہ بے انتہا بزدل، فحش پسند، افواہ پھیلانے والے اور معاند ہوتے ہیں ، اہل ایمان کو ان سے جہاد کا صریح حکم ہے، اگر مسلمان کمزور ہوں تب تو ان کو حکم ہے کہ وہ عملی جہاد نہ کریں بلکہ منافقوں سے چوکنے رہیں اورصبر سے کام لیں ، اور اگر طاقت ورہوں تو عملی جہاد کے ذریعہ ان کا کام تمام کردیں ، اہل ایمان سے ایمان کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اہل نفاق سے دوستی نہ رکھیں ، قریب نہ ہوں ، ان کا بائیکاٹ کریں ، ان پر اعتماد نہ کریں ، جہاد کے موقعے پر انہیں ساتھ نہ لیں ، اہم معاملات ان سے مخفی رکھیں ، ساتھ ہی حسبِ موقع انہیں سمجھائیں ، اللہ کے عذاب سے ڈرائیں اور اخلاصِ ایمانی