مغرب کا دلفریب نعرہ:
آزادی اورجدت
کسی بھی معاشرہ کے بگاڑ اور زوال کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی قدروں ، اصول اور طریقۂ کار کو پس پشت ڈال کر دوسروں کی دریوزہ گری کرے، اور اپنی سماجی ومذہبی خصوصیات وامتیازات سے دستکش ہوکردوسرے سماجوں اور تہذیبوں کی چاکری کرے۔
ازدواجی زندگی کا جو تصور اسلام نے دیا ہے وہ مغرب کے وضع کردہ قوانین سے یکسر مختلف ہے، مغربی اصول میں جنسی، نسلی اور قومی فرق اوربھید بھاؤ کو بنیادی درجہ دیا گیا ہے، وہاں کالے گورے کا فرق ہے اور گوروں کو کالوں سے بلند مرتبہ قرار دیا جاتا ہے وہاں مردوزن کی مساوات کا جو نعرہ لگایا جاتا ہے اس میں حقوقِ نسواں کا اعلان بھی بڑے شدومد سے کیا جاتا ہے، اہل مغرب زندگی کے ہر شعبہ میں عورت کو مرد کی صف میں مساویانہ کھڑا کرتے ہیں اور اسے اپنا تہذیبی امتیاز قرار دیتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ صدیوں کی غلامی کے بعد انہوں نے عورتوں کو آزادی دلادی ہے، اور اب عورتوں کے آلام ومصائب کا دور ختم ہوچکا ہے۔
ان دلفریب نعروں کا عورتوں نے استقبال کیا اور متأثر ہوکر اپنا وقار اور حیا تار تار کرکے میدان میں آگئیں اور اپنے آپ کو آزاد اور خود مختار باورکیا، لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آزادئ نسواں کے نام پر کئے جانے والے پروپیگنڈہ کا فراڈ کھل کر سامنے آتا ہے کہ ان مغربی ممالک میں تمام تر گھٹیا اورنچلے کام عورت کے سپرد ہیں اور بلند عہدوں تک