نیکیوں کا زہر؛ حسد
کسی بندۂ خدا کو حاصل شدہ دینی، علمی،عملی، مالی، بدنی وجسمانی، اخلاقی وروحانی نعمتوں کے زوال اور خاتمہ کی تمنا کا نام شریعت کی اصطلاح میں حسد ہے۔
حسد بدترین اخلاقی مرض ہے، انسانی زندگی کی قبیح ترین خصلت ہے، اسی لئے قرآن وحدیث کے نصوص میں اس کی بے پناہ مذمت اور اس سے دور رہنے کی تلقین وتاکید آئی ہے، عہد رسالت میں اللہ عزوجل نے اہل ایمان کو قرآن وایمان کی جو بے بہا دولت ونعمت عطا فرمائی تھی بدباطن یہودی اس سے جلتے تھے اور ان کے دلوں میں ہمہ وقت یہی تمنا اور آرزو مچلتی رہتی تھی کہ یہ نعمت مسلمانوں سے سلب کرلی جائے۔ قرآن کی صراحت ہے کہ:
وَدَّ کَثِیْرٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِیْمَانِکُمْ کُفَّاراً، حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ۔ (البقرۃ: ۱۰۹)
ترجمہ: اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹالے جائیں ، اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لئے ان کی یہ خواہش ہے۔
حسد کے مختلف درجات ہیں ، ایک درجہ یہ ہے کہ صرف صاحب نعمت سے سلب نعمت کی تمنا دل میں ہو، خواہ خود اس تمنا کرنے والے کو وہ نعمت میسر آئے یا نہ آئے، حسد کی سب سے بدترین صورت یہی ہے، اہل نفاق اسی حسد میں مبتلا تھے کہ وہ اہل ایمان سے نعمت ایمان سلب کئے جانے کے متمنی تھے اور انہیں اپنی طرح کافر دیکھنا چاہتے تھے۔