اخلاقی قوت ہی اصل جوہر ہے
ایک عرب شاعر نے بہت پتے کی بات کہی ہے کہ :
وَإِنَّمَا اْلاُمَمُ اْلاَخْلاَقُ مَا بَقِیَتْ
فَاِنْ ہُمٗ ذَہَبَتْ اَخْلاَقُہُمْ ذَہَبُوْا
امتیں اور اقوام اخلاق کی بدولت زندہ رہتی ہیں ، اخلاق نہ رہیں تو امتیں بھی ختم ہوجاتی ہیں ۔
امتوں کی حیات وبقاء کے لیے اخلاق کی اہمیت کلیدی نوع کی ہوتی ہے، اخلاق کی دولت سے محرومی زندگی کو بے روح وبے کیف بنادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند قدوس نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا تو انہیں خود اخلاق کا اعلیٰ مرتبہ عطا کیا اور ان کی تعلیمات میں اصلاح اخلاق کو بنیادی درجہ عطا کیا، قرآن کریم میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کے سلسلہ میں فرمایا گیا:
إِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ (القلم: ۴)
ترجمہ: بے شک آپ اخلاق کے اعلیٰ ترین درجہ پر ہیں ۔
یوں تو دنیا کے تمام مذاہب کی اساس اخلاق ہی پر ہے، تمام انبیاء ومصلحین نے اخلاق کی تعلیم دی، لیکن اسلام میں اخلاق کو بیحد اہمیت دی گئی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد حسنِ اخلاق کی تکمیل بتایا ہے، خود قرآن کریم میں آپ کا ایک اہم مقصدِ بعثت تزکیہ (اصلاح اخلاق وتعمیر سیرت) قرار دیا گیا ہے، تمام مذاہب میں اسلام کو یہ