صحابۂ کرام کا امتیاز یہی تھا کہ وہ علم وعمل کے حیرت انگیز حد تک جامع تھے، اور واقعہ یہی ہے کہ اس جامعیت کے بغیر جہاد نفس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
(۳) دعوتِ حق: یہ بہت اہم کام ہے، خاص طور پر فتنوں اور جہالت وضلالت کے غلبے کے اس دور میں اس کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے، اور جہاد نفس کی تاثیر وتکمیل میں اسے اساسی مقام حاصل ہے۔
(۴) راہِ دعوت کی مشقتوں پرصبر: اس راہ میں مزاحمتوں اور مشقتوں کا پیش آنا یقینی امر ہے، ایک مجاہد جبھی کامیاب ہوگا جب وہ ان دشواریوں کو راہِ حق کا تحفہ سمجھ کر برداشت کرلے۔
(۲) شیطان سے جہاد:
یہ بالکل واقعہ ہے کہ شیطان مرد مؤمن کا ازلی ابدی دشمن ہے، اس نے اسے گمراہ کرنے کی روزِ اول سے قسم کھارکھی ہے اور اس مہم میں مکمل سرگرم بھی ہے، اہل ایمان کا یہ عقیدہ ہے کہ شیطان ان کا کھلا ہوا دشمن ہے، وہ گناہوں کو خوشنما کرکے پیش کرتا ہے، انسان کے اندر سے احساسِ گناہ ختم کرنا چاہتا ہے، اور جنت کی راہ سے ہٹاکر جہنم کی راہ پر چلانے کا آرزو مند رہتا ہے، قرآن کی تقریباً سو آیات میں شیطان کا نام لے کر اس کی گمراہ کرنے کی مہم کا ذکر ہے اور اہل ایمان کو شیطان سے بچنے اور اس کی وسوسہ اندازیوں کا مقابلہ کرنے کا حکم ہے۔
شیطان کا سب سے برا وسیلۂ تضلیل خواہشِ نفس ہے، جو خواہشِ نفس کا پیرو ہے وہ فی الواقع شیطان کا غلام ہے، تکبر وگھمنڈ بھی شیطانی گمراہ کاری کا اہم ذریعہ ہے، شیطان سے جہاد کا جو حکم ملا ہے اس کے دو قوی ہتھیار بھی بتائے گئے ہیں : (۱) ذکر (۲) فکر۔ ذکر الٰہی اور اللہ کو ہمہ وقت یاد اور مستحضر رکھنے کی برکت اورفکر وعقل سلیم کی نصرت وقوت سے شیطان کی وسوسہ اندازیوں ، گناہوں کی ملمع کاریوں کا پردہ چاک کیا جاسکتا ہے، اور ان سے اپنے کو بچایا جاسکتا ہے، ساتھ ہی توبہ، رجوع الی اللہ، استغفار، شیطان اور اس کے شر ووسوسے سے پناہ طلبی اورمعاصی پر ندامت بھی وہ طریقے ہیں جو شیطان کا وار کند وناکام بناتے ہیں ۔