مادّہ پرستی کا طوفان
اس وقت پوری دنیا سر سے پیر تک پوری طرح سے مادّہ پرستی کے عمیق اور مہیب گڈھے میں گرتی جارہی ہے، مال ودولت ہی کو ہر چیزکے حسن وقبح کا معیار قرار دیا جاتا ہے، روحانیت اور پاکیزگی کے الفاظ موجودہ نظریات کے لغت میں اجنبی سمجھے جاتے ہیں ، ہر چیز کو مادّیت کے پیمانوں سے ناپا جاتا ہے، معرکے اور لڑائیاں بھی مادّیت ہی کے مقصد سے لڑی جاتی ہیں ، حصولِ تعلیم کا بھی منشا اب حصولِ مال وزر بن گیا ہے، مالی فائدوں سے لبریز چیز بہتر اور اس سے خالی چیز بدتر گردانی جاتی ہے، حتیٰ کہ اگر آپ کسی دوست کو خوبصورت گلاب تحفہ میں دیں تو وہ اس کی قیمت کے اندازوں میں لگ جاتا ہے اور گلاب کی خوبصورتی، ہدیہ کے پیچھے مخفی جذبۂ محبت وتعلق سب سے لاتعلق ہوکر صرف مادّی قیمت کے اندازے کو پیش نظر رکھتا ہے، مادہ پرستی کے طوفانِ بلا خیز کا یہ ایک نمونہ ہے، ورنہ فی الواقع اب ہر شعبۂ زندگی میں اس طوفان نے اپنے پنجے اس طرح گاڑ دیئے ہیں کہ اس سے رُست گاری بے حد دشوار نظرآتی ہے۔
مسجدیں اور عبادت گاہیں تک اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں ، ادیب وفنکار افراد کا طبقہ اس کے نرغے میں بری طرح پھنسا ہوا ہے، ادباء کی قلمی تخلیقات اجرتوں اور معاوضوں کی مقدار کے لحاظ سے سامنے آتی ہیں ، جتنی زیادہ اجرت دی جاتی ہے تخلیق میں ادیب اتنی ہی زیادہ سحر اثری پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، مادّہ پرستی ہی کا اثر ہے کہ اب ادباء تعمیری، سنجیدہ اورمثبت موضوعات کے بجائے غیر سنجیدہ موضوعات، ناول، ڈراموں وغیرہ پر توجہات مرکوز رکھتے ہیں ، فحش نگاری کی قدر اسی لئے بڑھ گئی ہے کہ اس راہ سے مادی آمدنی زیادہ ہوتی ہے۔