دین پر جماؤ
احادیثِ نبویہ میں قربِ قیامت میں آنے اور چھانے والے فتنوں کی مکمل اور مفصل پیش گوئی ملتی ہے، اور یہ وضاحت ملتی ہے کہ فتنوں کے غلبے کے دور میں دین پر جماؤ اورشریعت پر استحکام کا ثواب دوسرے ادوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، مشکل اور ناگفتہ بہ حالات میں جہاں ایمان اور عملِ صالح کی راہ میں خطرات اور روڑے ہوں ، دشمنانِ دین اہل حق کی مذہبی آزادی کے لئے بالکل تیار نہ ہوں اور ہر ممکن کوشش سے حق کی راہِ مسدود کرنے کے دَرپَے ہوں ، ان حالات میں جو بندۂ خدا صراطِ مستقیم پر گامزن رہے اور اس کے قدم جادۂ حق پر استوار رہیں ، اس کے دین کی قوت، یقین کی پختگی اور استقامت وثابت قدمی اللہ کی نگاہ میں بڑی قدرومنزلت رکھتی ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ:
اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ۔
(مسلم شریف)
ترجمہ: طاقتور مسلمان (ایمانی طاقت اور جسمانی قوت کا حامل) اللہ کی نگاہ میں کمزور مسلمان سے زیادہ بہتر اور محبوب وپسندیدہ ہے۔
احادیث ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دورِ فتن میں دین پر جمے رہنے والے کو پچاس مسلمان کے برابر اجر ملتا ہے، ابوامیہ شعبانی کہتے ہیں گہ میں نے حضرت ابوثعلبہ خشنی سے پوچھا کہ اِس آیت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جس میں اہل ایمان سے کہا گیا ہے: