دولت ِ احساس واخلاص
شہروں میں شاہراہوں پر ٹریفک سگنل اورٹریفک پولیس کا انتظام ونظام ٹریفک کے نظام کو درست کرنے، بے ہنگم ہجوم کو کنٹرول کرنے اور سہولت پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے، ہر کسی کو اس نظام کی پابندی کرنی ہوتی ہے، اس میں کوئی استثناء نہیں ہوتا، ٹریفک پولیس کے اشاروں کی تعمیل ہر راہ گذر کو لازماً کرنی ہوتی ہے ورنہ بصورتِ دیگر سزا ملتی ہے۔
لیکن داعی اور معلم کی زبان، حکم اوراشارے کی تعمیل اس طرح نہیں ہوتی جیسی ٹریفک پولیس کی، داعی خیر کی دعوت دیتا ہے، شر سے روکتا ہے، معلم اخلاقِ حسنہ کی تعلیم دیتا ہے اور اخلاقِ بد سے منع کرتا ہے، مگر مدعو اور طلبہ پر داعی اور معلم کی باتوں کا برائے نام ہی اثر ہوتا ہے، داعی مال داروں کو فقراء پر خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے، سست وکاہل کو حرکت وعمل پر ابھارتا ہے، اصحابِ اقتدار کو عدل کا پیغام سناتا ہے، اور اس کے لئے تحریری وتقریری ہر طرح کے وسائل اختیار کرتا ہے مگر اس کی دعوت عموماً بے اثر ثابت ہوجاتی ہے، اس کی دعوت کی تعمیل ٹریفک پولیس کے اشاروں کی تعمیل کی طرح نہیں ہوتی۔
والدین اولاد کو اچھی تربیت دینا چاہتے ہیں ، محنت وکوشش کرتے ہیں ، نرمی وسختی ہرطرح سمجھاتے ہیں مگر اولاد عام طور پر غلط راہوں پر چل پڑتی ہے اور والدین کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں ۔
تھوڑا سا غور وفکر کیا جائے تو یہ فرق سمجھ میں آتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے احکام کی تعمیل کا سبب در اصل اس کی اپنی شخصیت کی سحر انگیزی نہیں ؛ بلکہ اس سزا اور پریشانیوں کا خطرہ ہے جو