قول وعمل کی ہم آہنگی
حضرت عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے اور مختصر خطاب میں فرمایا تھا:
أَنْتُمُ الْیَوْمَ إِلیٰ إِمَامٍ فَعَّالٍ أَحْوَجُ مِنْکُمْ إِلیٰ إِمَامٍ قَوَّالٍ۔
ترجمہ: آج تم کو کہنے والے امام سے کہیں زیادہ کرنے والے امام کی ضرورت ہے۔
حضرت عثمان کا یہ بلیغ جملہ ہمارے اس دور میں جیسی مطابقت رکھتا ہے، شاید ایسی مطابقت کسی دور میں نہ رہی ہوگی۔
قوالیت اور قوالیت پسندی ہم مسلمانوں کی بیماریوں میں بیحد قابل فکر بیماری ہے، قول وعمل کا تضاد سب سے بڑا انسانی روگ ہے، یہ نفاق کی بدترین صورت ہے، قرآن میں یہود کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے:
أَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ۔ (البقرۃ: ۴۴)
ترجمہ: تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟
مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا:
یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ، کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللّٰہِ