موت سامانِ عبرت ہے
موت انسانی زندگی کا فطری نتیجہ ہے جس کا ظہور بالکل یقینی ہے بقول شاعر: ؎
زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے؟ اِنہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
مگر اس کے باوجود ہر شخص موت سے خوف زدہ رہتا ہے، اسے مصیبت عظمیٰ باور کرتا ہے، جاہ ومنصب، مال ودولت، عہدہ واقتدار سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور موت اپنے بے رحم پنجے گاڑدیتی ہے، یہ اللہ کا قانون ہے جو کسی تبدیلی سے کبھی آشنا نہیں ہوتا، موت کسی پر رحم نہیں کرتی، جوانوں کی مکمل جوانی، عظیم انسانوں کی عظمت وعبقریت، صحت مندوں کی صحت وتندرستی، کوئی بھی چیز موت کی راہ میں حائل نہیں ہوتی بلکہ:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ۔
ترجمہ: ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ضرور ہے۔
زندگی ایک بے سہارا تنکے یا پانی کے بلبلے کی طرح ناپائیدار ہوتی ہے، متکبروں کا سارا کبر ونخوت، مالداروں کا پندارِ دولت وثروت، اصحاب اقتدار کا غرور وتمکنت سب موت کے سامنے ڈھے جاتے ہیں اور ذرّۂ بے مقدار سے بھی زیادہ بے حیثیت ہوجاتے ہیں ، سکندر رومی کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ مرا تو اس کی لاش کے پاس کچھ فلاسفر اکٹھا ہوئے اور یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر کوئی اس حادثۂ موت پر تبصرہ کرے اور مختصر جملہ بولے جس میں خواص کے لئے سامانِ تعزیت اور عوام کے لئے سامانِ وعظ ونصیحت ہو، چنانچہ پہلے فلسفی