سے غفلت انسان کے دنیا دار ہونے اور شقی القلب ہونے کی دلیل ہے، جب کہ موت کی یاد اور اس کی تیاری انسان کے دانش مند وہوشیار رہنے کی دلیل ہے۔
(۲) دنیوی زندگی کی عمدہ ترین آرائش کو چھوڑدے:
دنیوی زندگی کی زیب وزینت اور متاع ودولت عارضی اور بے مایہ ہے، اسی لئے احادیث وآیات قرآنیہ میں دنیوی آرائشوں سے اور اس میں انہماک سے شدت سے منع کیا گیا ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ طالب دنیا کا دل ہمیشہ پراگندہ، بے سکون اورغیر مطمئن رہتا ہے، اور مال ودولت کے پرستار پر لعنتِ خداوندی ہوتی ہے، بقدرِ کفاف پر رضا وقناعت اور دنیا طلبی سے دوری قابل تعریف عمل اور رحمت الٰہی کا ذریعہ اور فلاح وکامرانی کا وسیلہ ہے۔
(۳) باقی رہنے والی چیز کو فنا ہونے والی چیز پر ترجیح دے:
باقی رہنے والی چیز آخرت ہے، اور فنا ہونے والی چیز دنیا ہے، قرآن وحدیث میں دنیا کو متاع، لہو ولعب، فریب، اور وقتی زینت بتایا گیا ہے جب کہ آخرت کو دار القرار، خیر وپائندہ تر، اور افضل واشرف بتایا گیا ہے، اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ انسان دنیا کو بالکل حقیر وبے قیمت سمجھے، اور اس سے جی نہ لگائے، اسے عبرت کی جگہ سمجھے، اسے اپنا مقصود ومطلوب نہ بنائے، بلکہ آخرت کو اپنا دائمی وطن، اصل مقام، حقیقی منزل سمجھے، اور وہاں کی کامیابی کے حصول کی فکر ومحنت میں لگا رہے، احادیث میں آیا ہے کہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پَر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی، اور دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ وجیل ہے، یا سرائے خانہ ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا:
مَنْ أَحَبَّ دُنْیَاہُ أَضَرَّ بِآخِرَتِہٖ، وَمَنْ أَحَبَّ آخِرَتَہٗ أَضَرَّ بِدُنْیَاہُ، فَآثِرُوْا مَا یَبْقیٰ عَلیٰ مَا یَفْنیٰ۔ (مسند احمد)