اجتماعیت کی روح
اسلام کا مزاج اور پیغام یہ ہے کہ وہ اجتماعیت، اتحاد اور اجتماعی ربط وجوڑ کو انتشار، تعصب، اور باہمی توڑ کے مقابلے میں پسند کرتا ہے، وہ انفرادی فکر کے مقابلے میں اجتماعی فکر پیدا کرنا چاہتا ہے، اس میں ذاتی مقاصد کی تکمیل کے بجائے اجتماعی مقاصد کی تکمیل کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔
جاہلیت اوراسلام کا ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ جاہلیت میں قبیلہ بندی کا رواج تھا، ہر بجا وبیجا اور جائز وناجائز میں اپنے خاندان کی تائید اورمدد ضروری امر سمجھا جاتا تھا، مگراسلام نے قبیلہ بندی کا رجحان ختم کرکے حق پسندی اور عدل کی تعلیم دی، ہرمسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا، اور ہر طرح کے ظلم اور ناانصافی کو بہت بڑا جرم قراردیا، مظلوم کی مدد یہ بتائی کہ اسے بچایا جائے اور ظالم کی مدد یہ بتائی کہ اسے ظلم سے روکا جائے۔
تعصب کو اسلام بہت بڑا گناہ بتاتا ہے، ارشادِ نبوی ہے:
مَنْ دَعَا إِلیٰ عَصَبِیَّۃٍ فَلَیْسَ مِنَّا، وَمَنْ قَاتَلَ عَلیٰ عَصَبِیَّۃٍ فَلَیْسَ مِنَّا، وَمَنْ مَاتَ عَلیٰ عَصَبِیَّۃٍ فَلَیْسَ مِنَّا۔ (ابوداؤد شریف)
ترجمہ: جو تعصب کی دعوت دے وہ ہم میں سے نہیں ہے، جو تعصب سے لڑے وہ ہم میں سے نہیں ہے، جو تعصب پر مَرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ تعصب کی حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ: ’’تعصب ظلم پر اپنے بھائی کی مدد کا نام ہے‘‘۔ (ابوداؤد)