انسانِ کامل
انسان کامل(Super Man) کی تحدید وتعیین میں وصف نگاروں کی آراء میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے، اہل مشرق عام طور پر انبیائے کرام کو کامل انسان سمجھتے ہیں ، اس لئے کہ انبیاء اللہ کے وہ منتخب، برگزیدہ اور چیدہ وچنیدہ بندے ہوتے ہیں جو انسانوں اور اللہ کے درمیان رابطہ اور پیغامبری کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں ، وہ اللہ کے بعد اس روئے زمین کے تمام انسانوں سے بر تر ہوتے ہیں : ع
بعد از خدا بزرگ توئی ایں قصہ مختصر
صوفیائے کرام اور اصحاب تزکیہ واحسان نے انسان کامل کا لفظ خوب استعمال کیا ہے، ابن العربی کی کتابوں میں اس کا ذکر جابجا ملتا ہے، عبد الکریم جیلانی نے ’’انسانِ کامل‘‘ کے عنوان سے ایک باضابطہ کتاب بھی لکھی ہے، جس میں صوفیہ کا نقطۂ نظر بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کامل وہ ہے جو اللہ سے اتنا قریب ہوجائے کہ فنائیت کے مقام تک پہنچ جائے، ماسوا اللہ کا خیال تک اس کے دل میں نہ آئے، اس مقام بلند پر انبیاء واولیاء اور اللہ کے صالح بندے فائز ہوتے ہیں ، اس مقام پر پہنچنے کے بعد انسان کامل ہوجاتا ہے، شریعت اس کا مزاج وطبیعت بن جاتی ہے، ایمان کی لذت اور چاشنی وہ محسوس کرنے لگتا ہے اور اس کے دل کی دنیا میں عجیب انقلاب آجاتا ہے۔
اہل مغرب ویورپ کے ہاں مادّہ پرستی اورشہوت پرستی کے افراط نے تمام قدریں ہی بدل ڈالیں ، ان کا نقطۂ نظر صوفیہ کے نقطۂ نظر کے بالکل برعکس ہے، صوفیہ کی نگاہ میں روحانیت، خدا سے بے پایاں قرب، فنائیت، مادّہ پرستی سے گریز وفرار ہی کامل انسانیت کے مقام تک