فوری طور پر ہمارے کرنے کے کام
یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اسلام اور اہل اسلام کے دینی ودنیوی استحکام، بقاء دوام اور قوت وشوکت کا اصل منبع اور سرچشمہ ایمانِ کامل، عمل صالح، رسوخِ دینی، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، دعوتِ حق، اصلاحِ خلق کی سرگرمیاں ہیں ، امت محمدیہ کا یہ خاص امتیاز اور مقصد حیات ہے، جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔ (آل عمران: ۱۱۰)
ترجمہ: دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اسی مقصد کا ذکر مزید یوں ہوا ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (آل عمران: ۱۰۴)
ترجمہ: تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں ۔
نیز فرمایا گیا کہ:
وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ أُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ۔ (الاعراف: ۱۸۱)