خلیفہ معتضدکے پاس ۹؍ ملین دینار تھے اس نے یہ آرزو کی تھی کہ ایک ملین اور مل جائیں تو کل دس ملین ہوجائیں اور پھر وہ ان سب کو یکجا کرکے کسی خاص جگہ نمائش کے لئے رکھ دے تاکہ دنیا میں یہ مشہور ہوجائے کہ معتضد کے پاس دس ملین دینارایسے ہیں جن کی اسے چنداں ضرورت نہیں ہے، لیکن: ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
آرزو پوری ہونے سے قبل پیغامِ اجل آپہنچا۔
اسراف وتعیش کے یہ اور اس جیسے سیکڑوں واقعات کتبِ تاریخ میں موجود ہیں ، ہر دور میں اسراف وتصنع کی شکلیں بدلتی رہی ہیں ، نئی تہذیب میں اس کی بے شمار جدید شکلیں سامنے آئی ہیں ، اور زمانۂ قدیم اور موجودہ دور میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں اسراف وتعیش صرف طبقۂ امر اء کے بعض افراد تک محدود تھا،متوسط وادنیٰ طبقے مکمل اس سے دور تھے، اور دوری کو بہتر سمجھتے تھے، لیکن دورِ حاضر میں اب یہ وباء اعلیٰ اور متوسط دونوں طبقوں میں سرایت کرچکی ہے، ایک شادی ہی کا مسئلہ ہے جس کی مہینوں پہلے سے تیاریاں ہوتی ہیں ، پانی کی طرح پیسے بہائے جاتے ہیں ، رقم خرچ کرنے کے نِت نئے راستے نکالے جاتے ہیں ، اورپورا خاندان اس اسراف کی وجہ سے ناقابل بیان بوجھ کے نیچے دبارہتا ہے۔
اسی تصنع وتعیش نے پورے نظامِ زندگی کو پیچیدہ بناڈالا ہے، ماڈرن اور ایڈوانس اور اپ ٹو ڈیٹ کھلانے کے شوق اور ’’اپر کلاس‘‘ میں شامل ہونے کی حرص کچھ اتنی بڑھ چکی ہے اور مادّیت کی چمک اس درجہ خیرہ کرچکی ہے کہ دل نہ چاہتے ہوئے تصنع اور دکھاوے کے لئے انسان اسراف وتعیش کی آخری حدوں تک جاپہونچنے کے لئے ہر طرح سے کوشاں ہے، اس صورتحال نے نہ جانے کتنے گھروں اور خاندانوں کا گھریلو اور خاندانی نظام خراب کرڈالا ہے، کمالیات (غیر ضروری چیزوں ) کی طرف تصنع کے طور پر مکمل توجہ عام ہوچکی ہے، گھر کی ضرور