نعمتِ گویائی کا شکر مطلوب ہے
فلاسفہ کا خیال ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے، اور اس کا امتیازی وصف نطق (گویائی) ہے، گویائی فی الواقع اللہ کی عجیب وغریب نعمت ہے، یوں تو اللہ کی قدرت ہر شیٔ کو محیط ہے، وہ ہر چیز کو گویائی عطا کرسکتی ہے، اور قیامت میں محاسبہ کے ایک مرحلہ پرایسا ہوگا بھی کہ انسان کی زبانیں گنگ اور منہ سر بمہر کردیئے جائیں گے، اورہاتھوں ، پیروں ، اعضاء بدن، اجزائِ زمین سب گویا ہوجائیں گے اور انسان کے اعمال کے سلسلے میں حق کی شہادت دیں گے۔
لیکن اِس دنیا میں اللہ نے صرف انسانوں کو یہ امتیاز بخشا ہے کہ ان کی زبانوں میں گویائی کی قوت رکھ دی ہے، اگر کوئی محرومِ گویائی گونگا شخص اپنے جذبات کا اظہار کرسکے تب جاکر ہمیں اس نعمت کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے گا، گویائی کی قدر ان سے جانی جاسکتی ہے،جو اس سے محروم ہوں ، اللہ تعالیٰ اپنی ہر نعمت کی قدر دانی اور صحیح استعمال کا بندوں سے مطالبہ کرتا ہے، نعمتوں کی قدر اور جائز استعمال نہ کرنے والے ناشکری کے مرتکب ہوتے ہیں ، اور وہ ہر لمحہ اپنے کو اللہ کے غضب کی طرف ڈھکیلتے چلے جاتے ہیں جس کا ایک مظہر بسا اوقات اُ س نعمت سے محرومی کی شکل میں بھی سامنے آتا ہے۔
قوت گویائی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان پر آنے والے تمام الفاظ منہ سے نکال ہی دیئے جائیں ؛ بلکہ ایک بندۂ خدا کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ زبان سے نکلنے والے تمام الفاظ کو پہلے شریعت کی چھلنی میں چھان لیا کرے، روایاتِ حدیث میں آتا ہے کہ بہت