سے بالکل ناآشنا ہو، جو اپنے منافع کے لئے دوسروں کے ہرنقصان کو انگیز کرتا ہو اور جو اپنے خسیس مقاصد کی تکمیل کے لئے ہر حد تجاوز Cross کرنے میں کوئی باک نہ رکھتا ہو؟
موجودہ دنیا میں ان نام نہاد انسانوں کی کثرت ہے جو اپنے اعمال واوصاف میں شیاطین سے مشابہ ہیں ، کوئی دین کے نام پر دنیا طلبی میں لگا ہوا ہے، کوئی وطن پرستی کے نام پر وطن فروشی کررہا ہے، کوئی تجارت کا سہارا لے کر چوری کررہا ہے، کوئی محبت کا دَم بھر کر چھری چلا رہا ہے، کوئی معلم بن کرتعلیم کے اعلیٰ اقدار کو ملیا میٹ کررہا ہے، کوئی ڈاکٹر بن کر خدمتِ خلق کے نام پر لوٹ مار کر رہا ہے، کوئی اپنی بیوی سے خیانت کررہا ہے، کوئی اپنے شوہر کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خفیہ آشنائی میں مصروف ہے۔ بدکرداری کے بے شمار نمونے اور لامتناہی فہرست ہے، ہر ایک دوسرے کو کھانے اور ڈسنے کے چکر میں ہے، انسان اب ایسا بھیڑیا بن گیاہے جس سے جنگل کے بھیڑیئے شرماتے ہیں ۔
نئی تہذیب وتمدن کے علمبرداروں میں یہ بدکرداری کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے، اور ہر صاحب بصیرت انسان ایک لمحہ میں اس کا اندازہ کرلیتا ہے، حکیم مشرق اقبال کا بیان ہے کہ میخانۂ مغرب میں ان کو دردِ سر کے سوا کچھ نہ ملا اور دانشمندانِ فرنگ کی ہمراہی میں گذرے ہوئے دن سے زیادہ بے کیف، بے سوز اور بے نور شب وروز ان کی پوری زندگی میں کبھی نہیں آئے: ؎
مَے از مَے خانۂ مغرب چشیدم
بجانِ من کہ دردِ سر خریدم
نشستم با نکویانِ فرنگی
ازاں بے سوز تر روزے ندیدم
قرآن کے بیان کے مطابق جب انسان کی زندگی کا اصل مقصد اللہ کی عبادت اور بندگی ہے تو پھر ایمان وعبادت سے انحراف رکھنے والا ہر عمل انسان کو اس کے مقصدِ حیات سے غافل اور دور کرتا چلا جائے گا، اورمقصد سے منحرف انسان کیسے صحیح معنوں میں انسان کہلاسکتا ہے؟