اور عمل صالح کے ذریعہ اپنی انسانیت کو آراستہ اور درست نہ کرتا ہو وہ ہر طرح کی برائیوں میں ملوث ہوتا ہے اور وہ قرآنی تعبیر کے مطابق جانوربلکہ اس سے بھی زیادہ گیا گذرا ہوتا ہے، جو انسان ننگ انسانیت ہو تو وہ کتے اور گدھے سے بھی زیادہ بے حیثیت ہوتا ہے، پھر نہ دنیا اس کی ہے اور نہ آخرت۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے:
وَالْعَصْرِ إِنَّ اْلإِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ، إِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔ (العصر)
ترجمہ: زمانے کی قسم! انسان در حقیقت خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے اورایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
انسان صحیح معنوں میں وہ ہے جو اپنا مقصدِ تخلیق ہر لمحہ پیش نظر رکھ کر اسی میں لگارہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا ہر قدم جادۂ مستقیم پر استوار رہے، ایسے ہی انسان کو خساروں اور ہلاکتوں سے بری قرار دیا گیا ہے، لیکن وہ انسان جو ناشکری، بے صبری، انکارِ حق، کم ہمتی، جھگڑے، سرکشی، عناد، مادّیت، زر پرستی، اتباعِ ہویٰ، بخل، اکڑ، کبر، احسان فراموشی، محسن کشی اورغدر وخیانت جیسی تمام لعنتوں میں اسیر ہو اور جو اپنی خساست ودناء ت کی وجہ سے مذہب، قوم، وطن سب کے لئے ننگ وعاربن چکا ہو وہ صحیح معنوں میں انسان کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے۔
کیا عقل سلیم اس کی روادارہوسکتی ہے کہ اسے انسانوں کے زمرہ میں شامل کیا جائے جو اپنے بھائیوں کو بھی اپنی سفاکی اور وحشیت کا نشانہ بناتا ہو، جو ہزاروں معصوموں کی جانیں لے کر ان کے تڑپتے لاشوں پر ہنستا اور ٹھوکریں مار کر گذرجاتا ہو، جو معصوم بچوں کے منہ سے نوالے چھین کر ان کے تڑپنے کا منظر دیکھتا اور خوش ہوتا ہو، اور جو بچوں کو یتیم، خواتین کو بیوہ اور ماؤں کو لاولد کرکے چین پاتا اور رقص کرتا ہو، جو امانت ودیانت اورعہد ووعدہ کی پاسداری