أَکْرَمَنْ وَأَمَّا اِذَا مَا ابْتَلاَہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْ أَہَانَنْ۔
(الفجر: ۱۵-۱۶)
ترجمہ: مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنادیا اور جب وہ اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا۔
وَإِذَآ أَنْعَمْنَا عَلیَ اْلإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَ بِجَانِبِہٖ، وَإِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآئٍ عَرِیْضٍ۔ (حٓم السجدۃ: ۵۱)
ترجمہ: انسان کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ منھ پھیرتا ہے اور اکڑجاتا ہے، اور جب اسے کوئی آفت چھوجاتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔
خُلِقَ اْلإِنْسَانُ ضَعِیْفاً۔ (النساء: ۲۸)
ترجمہ: انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
وَإِذَا مَسَّ اْلإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖ أَوْ قَاعِداً أَوْ قَائِماً، فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَأَنْ لَّمْ یَدْعُنَا إِلیٰ ضُرٍّ مَسَّہٗ۔ (یونس: ۱۲)
ترجمہ: اور جب انسان پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو وہ کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی برے وقت میں ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔
قرآن نے مختلف مقامات پر انسان کے طرزِ عمل اور نفسیات کا یہ نقشہ بھی کھینچا ہے؛ لیکن یہ اوصاف عام طور پر انسان کی اس نوع کے ہیں جو جوہر ایمان سے محروم ہو یا ایمان کے رسمی اظہار کے بعد اپنی پوری زندگی خلافِ ایمان اعمال میں بسر کرتی ہو، جو انسان ایمان