عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ، لاَ یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ، إِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعاً۔ (المائدۃ: ۱۰۵)
ترجمہ: اپنی فکر کرو، تم اگر ہدایت یافتہ ہو تو گمراہ لوگ تم کو بالکل نقصان نہ پہنچاسکیں گے، تم سب کو لوٹ کر اللہ کے پاس جانا ہے۔
حضرت ابوثعلبہ نے فرمایا کہ میں نے اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
اِئْتَمِرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنَاہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ حَتّٰی إِذَا رَأَیْتَ شُحاًّ مُطَاعاً وَہَوًی مُتَّبَعاً وَدُنْیَا مُؤْثَرَۃً، وَإِعْجَابَ کُلِّ ذِیْ رَأْیٍ بِرَأْیِہٖ، فَعَلَیْکَ نَفْسَکَ، وَدَعْ أَمْرَ الْعَوَامِّ، فَإِنَّ وَرَائَ کُمْ أَیَّامَ الصَّبْرِ، فَمَنْ صَبَرَ فِیْہِنَّ قَبَضَ عَلَی الْجَمْرِ، لِلْعَامِلِ فِیْہِنَّ أَجْرُ خَمْسِیْنَ رَجُلاً یَعْمَلُوْنَ مِثْلَ عَمَلِہٖ۔ (ترمذی شریف: ۳۰۶۰، ابن ماجۃ: ۴۰۴۱)
ترجمہ: تم نیکی کا حکم دو، برائی سے روکو، یہاں تک کہ جب تم یہ دیکھ لو کہ بخل وحرص کی راہ پر لوگ چل رہے ہیں ، خواہشِ نفس کی پیروی ہورہی ہے، دنیائے دوں کو آخرت پر ترجیح دی جارہی ہے، ہرصاحب رائے اپنی رائے پر خوش (اور مصر ہوکر اسی کو حرفِ آخر قرار دینے پر تلا ہوا) ہے، اور فساد وبگاڑ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کا مقابلہ وازالہ اورروک تھام تمہارے بس سے باہر ہے تو پھر تم اپنی (اور اپنے ایمان کے بچاؤ کی) فکر میں لگ جاؤ، دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو (ان کے پیچھے مت پڑو) آگے چل کر (فتنوں اور شدائد کے) ایسے ایام آنے والے ہیں جن میں دین پر جماؤ انگارہ ہاتھ میں لینے کی طرح (مشکل اور مصائب سے پر) ہوگا، ان حالات میں دین اور عمل صالح پر قائم رہنے والے کو اس جیسا