اور (بدعملیوں کے ساتھ) اللہ سے (فلاح ونجات کی) آرزوئیں باندھے۔
ایک حدیث شریف میں وارد ہوا ہے:
إِنَّمَا أَخَافُ عَلیٰ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ کُلَّ مُنَافِقٍ یَتَکَلَّمُ بِالْحِکْمَۃِ وَیَعْمَلُ بِالْجَوْرِ۔ (شعب الایمان)
ترجمہ: مجھے اس امت پر ہر اس منافق سے اندیشہ ہے جو باتیں تو حکیمانہ کرے لیکن کام اس کے ظالمانہ ہوں ۔
دانشمندانہ، فکر انگیز، حکمت پر مبنی، شیریں گفتگو ہو مگر عمل ظالمانہ وفاسقانہ ہو، زبان نبوت میں ایسے لوگ امت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور ان سے ہوشیار رہنے کی تاکید وتلقین ہے، ایک حدیث میں ایسے لوگوں کے بارے میں آیا ہے کہ ان کی زبانیں شکر اور شہد سے زیادہ شیریں مگر دل بھیڑیوں کی طرح خطرناک ہوں گے، اور ان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے کہ ہر نبی کی امت میں ایسے ناخلف ہوتے ہیں جو قول وعمل کے تضاد اور حکم شریعت کے عصیان میں مبتلا ہوتے ہیں ، ایسے لوگوں سے اپنے ہاتھ سے جہاد (ان کی غلط کاریوں پر نکیر) کرنے والا مؤمن کامل ہے، ان سے زبانی جہاد کرنے والا درمیانی درجہ کا مسلمان ہے، اور صرف دل سے جہاد کرنے والا (دل میں ان کے عمل کو برا سمجھنے والا) ناقص مؤمن ہے، اس کے بعد ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں رہتا۔ (مسلم شریف)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیازی وصف قول وعمل کی ہم آہنگی اورقوتِ عمل تھا جس نے آپ کو ہر مرحلۂ حیات میں کامیابی سے ہم کنار کیا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کے جواب میں کہا تھا:
کَانَ خُلُقُہٗ اَلْقُرْآنَ۔ (ابوداؤد شریف)