ترجمہ: آپ کا اخلاق قرآن ہے۔
یعنی جو کچھ قرآن میں بصورتِ الفاظ ہے وہی آپ کی سیرت وحیات میں بصورتِ عمل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن ہیں ، آپ نے جو حکم بھی دیا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خود اس پر عمل کرے دکھایا، غریبوں کی امداد کا حکم دیا تو پہلے خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلایا، دشمنوں کو معاف کرنا سکھایا تو پہلے خود دشمنوں کو معاف کیا، نماز کا حکم دیا تو سب سے زیادہ نمازیں خود پڑھیں ، زکوٰۃ کا حکم دیا تو اپنا سب مال راہِ خدا میں قربان کردیا، قرآن نے اسی لئے آپ کی حیات کی اخلاقیت کو آپ کے معاصرین کے سامنے نقد وتبصرہ کے لئے پیش کیا:
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراً مِنْ قَبْلِہٖ أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ۔ (یونس: ۱۶)
ترجمہ: میں اس سے پہلے ایک مدت تمہارے درمیان گذار چکا ہوں ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔
پھر آپ کو خطاب کرکے فرمایا:
إِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ (القلم: ۴)
ترجمہ: اے محمد! یقینا آپ اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔
قول وعمل اورگفتار وکردار کی موافقت ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر میدان زندگی میں نمایاں کامیابی عطا کی، اورآج بھی کامرانی کی کلید یہی موافقت ہی ہے، اسلاف کی کامیابیوں اور ظفر مندیوں پر ناز کرنے والے اوراپنے آپ کو فراموش کرنے والے افراد سے اقبال کی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ: ؎
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بکنار
mvm