أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ۔ (الصف: ۲-۳)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔
اس آیت میں صاف واضح کردیا گیا ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول وعمل میں مکمل مطابقت ہونی چاہئے، جو کہے اسے کرے، جو کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو اسے زبان سے نہ کہے، قول وعمل کا تضاد بدترین خصلت ہے جو اللہ کی مبغوضیت کا سبب بنتی ہے، دوسروں کی اصلاح کے لئے سرگرمی اوراپنی اصلاح سے بے فکری خود رافضیحت دیگراں را نصیحت کا انجام بیحد عبرتناک ہوتا ہے، حضرت اسامہؓ کی حدیث ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے دن ایک شخص کو لاکر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا تو آگ میں (شدتِ عذاب کی وجہ سے) اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی، اہل دوزخ اس کے پاس جمع ہوکر کہیں گے تمہارا کیا حال ہے؟ کیا تم دنیا میں ہم کو اچھی باتوں کا حکم نہ دیتے تھے اور بری باتوں سے منع نہ کرتے تھے؟ وہ کہے گا کہ میں تم کو اچھی باتوں کا حکم تو دیتا تھا مگر خود ان پر عمل نہ کرتا تھا اور تمہیں بری باتوں سے روکتا تو تھا مگر خود ان کا ارتکاب کرتا تھا‘‘۔ (بخاری شریف)
معلوم ہوا کہ قول وعمل کا تضاد جہنم کے المناک عذاب کو دعوت دیتا ہے، دوسروں کی فکر میں اپنی طرف سے بے فکری مسخرہ پن ہے، حدیث شریف میں ہے:
اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہٗ ہَوَاہَا وَتَمَنیّٰ عَلَی اللّٰہِ۔ (ترمذی شریف)
ترجمہ: عقل مند وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرلے اور آخرت کی ابدی زندگی کے لئے عمل کرلے، اور عاجز وبے بس ہے وہ جو اپنے نفس کو خواہشِ نفس کے تابع کردے