محبت بڑھتی ہے، معاشرتی زندگی پُر سکون ہوتی ہے، اور خود آدمی متنوع پریشانیوں اورمشکلات سے محفوظ ہوجاتا ہے، مزید براں وہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے اور محبوبیت الٰہی کے نتیجے میں محبوبِ ملائکہ بھی بن جاتا ہے اور پھر پوری روئے زمین میں اس کی مقبولیت ومحبوبیت کا انتظام من جانب اللہ کردیا جاتا ہے۔
دوسری طرف زبان کی بداحتیاطی کے بہت برے نتائج ہوتے ہیں ، اللہ کا غضب اترتا ہے، زبان کے لحاظ سے غیر محتاط آدمی اللہ کا، فرشتوں اور انسانوں کا مبغوض ہوجاتا ہے، اور حدیث کے بموجب ایسے آدمی کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جہاں اسے چہرے کے بل دھکیل دیا جائے گا وہ عذابِ قبر میں بھی مبتلا ہوگا، دنیا میں وہ پریشانیوں کا شکار ہوگا اور دوسروں سے اس کے تعلقات بگڑجائیں گے۔
اسلاف میں سے کسی کا قول ہے کہ ’’مؤمن بولتا کم اور کرتا زیادہ ہے، اسی لئے لغزشوں سے مامون رہتا ہے ، اور منافق کرتا کم اور بولتا زیادہ ہے، اسی لئے وہ بہت لغزشوں میں مبتلا ہوتا ہے‘‘ اور ’’جسم انسانی میں دو ٹکڑے ہیں زبان اور دل، یہ دونوں اگر ٹھیک ہیں تو سب ٹھیک ہے، اور ان دونوں میں اگر فساد آگیا تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے‘‘۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ زبان کی احتیاط آدمی کے لئے ہر لحاظ سے خیر وبرکت کی باعث اور مفید چیز ہے، اور زبان کی بے احتیاطی بے حد ضرر رساں اور مہلک چیز ہے۔
mvm