پھل آتا تھا، باغوں کے درمیان نہر جاری کردی تھی، اس کے علاوہ مزید مال وزر اور دولت سے نوازا تھا، ان سب نوازشوں کا تقاضا یہ تھا کہ وہ شکر ادا کرتا، مگر اس نے تکبر کیا، اپنے مال کی کثرت پر اکڑدکھائی، قیامت کا انکار کیا، اللہ کی قدرت مطلقہ کا منکر ہوگیا، اس کے موحد ساتھی نے اسے سمجھایا اور کفر وناشکری اور غرور وتکبر کی بدانجامی سے ڈرایا مگر اسے ہوش نہ آیا، بالآخر اللہ نے اپنا عذاب بھیج دیا، اس کا باغ اور سارا مال ختم ہوگیا اور وہ ہاتھ ملتا رہ گیا، اور کہنے لگا کہ کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا، معلوم ہوا کہ اس کا شرک یہ تھا کہ اس نے اسبابِ ظاہر کو تمام خوشحالی اور دولت کا سرچشمہ سمجھ لیا تھا، اور اللہ کو فراموش کربیٹھا تھا، یہی مادّہ پرستی کا شرک ہے جو عصر حاضر کا بہت بڑا ناسور ہے۔
مدعیانِ اسلام کی اکثریت اس شرک میں عملی طور پر مبتلا ہے، قرآنِ کریم اسی کی بیخ کنی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ، وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقیٰ۔
ترجمہ: دنیوی زندگی کا ساز وسامان بے مایہ ہے، خدا ترسوں کے لئے آخرت بدرجہا بہتر ہے۔
mvm