مادہ پرستی میں پور پور غرق سماج تاریکیوں اور ظلمتوں میں محبوس اور روشنی سے محروم وتہی دامان رہتا ہے، اور پھر اس کے مسموم اثرات سے پورے پورے علاقے متأثر ہوتے ہیں ، مادّہ پرستی کا سرا براہِ راست جہالت اور حقیقت نا آشنائی سے ملتا ہے، انسان جب وقتی لذتوں کو دائمی اور فانی چیزوں کو ابدی باور کرنے لگتا ہے تو پھر وہ وقتی مادّی چیزوں ہی کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے، نفس وشیطان کے بہکاوے اور دامِ تحریص میں وہ الجھتا اور پھنستا چلا جاتا ہے۔
حالانکہ اگر عقلِ سلیم کا استعمال کیا جائے تو یہ حقیقت بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ دنیوی رونقیں محض سراب ہیں ، ان کے وجود کو کوئی قرار ودوام نہیں ہے، وہ بہت جلد ختم ہوجاتی ہیں ، ان کی مثال قرآن کی زبان میں ایسی ہے جیسے کہ بارش ہوتی ہے، اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوتے ہیں ، پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زرد ہوجاتی ہے، پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے۔
دنیاوی رونقوں کا حال یہی ہے کہ وہ ناپائیدار چیزیں ہیں ، کوئی صاحب عقل باہوش انسان کبھی ان کے فریب میں آکر دائمی وسرمدی چیزوں سے کنارہ کش اور فانی چیزوں کی طرف راغب وفریفتہ نہیں ہوسکتا، اب جو لوگ ان وقتی رونقوں کے فریب میں گرفتار اور اصل چیزوں سے بیزار ہیں وہ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ کس درجہ بے عقلی میں مبتلا ہیں ؟ مادّہ پرستی اور بے عقلی میں چولی دامن کا ساتھ ہے، ایک کو دوسرے سے کبھی بھی کسی طرح الگ نہیں کیا جاسکتا۔
mvm