دیکھے جاسکتے ہیں ، اورخاص طور پر بعض افرادِ امت میں کبر وغرور کی جو بیماری پائی جاتی ہے اس کا نتیجہ بھی عالم آشکارا ہے۔
جب کہ اسلامی تعلیمات میں احساس برتری کے افراط اوراحساسِ کمتری کی تفریط دونوں سے نکال کر خود اعتمادی اور جذبۂ عمل کے اعتدال کی ترغیب کے نمونے جابجا دیکھے جاسکتے ہیں ، ایک طرف اسلام کبر وغرور سے سختی سے منع کرتا ہے، اسے پستی وذلت کا سبب بتاتا ہے، اور یہ واضح کرتا ہے کہ ہر نعمت اللہ کی عطا کردہ ہے، ہر قوت اس کی بخشیدہ ہے، ہر صلاحیت اسی کی ودیعت کردہ ہے، سب سے بڑا وہی ہے، سب سے زیادہ علم اسی کو ہے، اس کے مقابلے میں انسان بیحد ناتواں ، جاہل، عاجز وبے بس ہے۔ قرآنِ کریم کہتا ہے:
وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ۔ (النحل: ۵۳)
ترجمہ: جو نعمت بھی تم کو ملتی ہے وہ منجانب اللہ ہے۔
وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ۔ (یوسف: ۷۶)
ترجمہ: ہر جاننے والے سے بڑا جاننے والا موجود ہے۔
وَمَآ أُوْتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً۔ (الاسراء: ۸۵)
ترجمہ: تمہیں تو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
اسی طرح اسلام غرور وکبر سے روکتا ہے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی اسی کی عملی تعلیم ہے، فتح مکہ کے موقعہ پر کافروں کی سابقہ لاتعداد اور سخت ترین اذیتوں کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبر وغرور کا ادنیٰ سا مظاہرہ نہ خود فرمایا اور نہ صحابہ سے ہونے دیا بلکہ جانی دشمنوں کو یک لخت معاف کردیا اور اپنی تواضع اور حسن اخلاق سے دل فتح کرلئے، اور فرمایا:
اَنَا ابْنُ امْرَأَۃٍ مِنْ قُرَیْشٍ کَانَتْ تَأْکُلُ الْقَدِیْدَ۔
ترجمہ: میں ایک قریشی خاتون کا فرزند ہوں جو سوکھے گوشت کے ٹکڑے