پر گذارہ کرتی تھی۔
رسالت، نبوت، کمالِ علم وفضل، حکمت وفراست اور فتح وکامیابی سب سے بہرہ مند ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس متواضعانہ اورکبر وغرور سے کوسوں دور رویے میں قیامت تک لئے پوری انسانیت کے احساسِ برتری اور کبر وغرور سے اجتناب کی بے انتہا جامع اور مؤثر عملی تعلیم ہے۔
دوسری طرف اسلام احساسِ کمتری سے روکتا ہے، خود اعتمادی پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے، قرآن اسی لئے امت محمدیہ کو امتِ وسط اور خیر امت کہتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ اگر تم مؤمن کامل ہوجاؤ تو سربلندی تمہیں ہی ملنی ہے، اسی طرف ارشاد نبوی ہے:
لَا یَحْقِرَنَّ أَحَدُکُمْ نَفْسَہٗ۔ (ابن ماجہ)
ترجمہ: تم میں سے کوئی ہرگز اپنے کو حقیر نہ سمجھے۔
صحابہ کی تاریخ میں احساس کمتری کا کوئی تصور نہیں ملتا، کسی صحابی نے اپنے کو کمتر نہیں سمجھا، دشمنوں کی بے پناہ قوت وکثرت کے باوجود صحابہ کا اعتماد باقی رہا اور اسی لئے وہ فاتح وکامران رہے، مرعوبیت اوراحساس کمتری زندہ قوموں کی علامت نہیں ہے، امت محمدیہ کے اکثر افراد جو آج مرعوبیت اور احساسِ کمتری کے شکار ہیں اگر اپنے دلوں میں خود اعتمادی پیدا کرلیں اور ایمان کامل کی دولت سے مالا مال ہوجائیں تو وہ ذلت ومسکنت کے شکنجہ سے باہرآسکتے ہیں ، اور ان کے حق میں یہ وعدۂ الٰہی پورا ہوسکتا ہے:
وَنُرِیْدُ أَنْ نَمُنَّ عَلیَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِیْ الْأَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ أَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِیْنَ۔ (القصص: ۵)
ترجمہ: ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر مہربانی کریں جو زمین میں ذلیل وکمزور کرکے رکھے گئے ہیں اور انہیں پیشوا بنادیں اورانہیں کو وارث بنائیں ۔
mvm