سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا، کسی عالم کا احترام نہیں کرتا، کسی صاحب فضل کے فضل کا اعتراف نہیں کرتا، وہ اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم، سب سے بڑا عقل مند، سب سے باعظمت وعالی مرتبت، ادب واکرام کا اولین اور بجا طور پر مستحق سمجھنے لگتا ہے۔
تجزیہ بتاتا ہے کہ یہ بیماری ان افراد میں زیادہ ہوتی ہے جو پستی سے یکایک کچھ بلندی کی طرف، ناداری وفقر سے اچانک کچھ مالداری ودولت مندی کی طرف، پسماندگی سے یک بیک کچھ ترقی کی طرف آتے ہیں ، جو پہلی بار دولت پالیتے ہیں یا اتفاقاً کوئی عہدہ ان کے ہاتھ آجاتا ہے ان کی حالت یہی ہوتی ہے کہ ان کا مزاج تکبر وتعلّی کی آخر حد تک پہونچ جاتا ہے بلکہ وہ دوسروں کو انسان بھی سمجھنا گوارا نہیں کرتے، اورہر ایک کو جاہل واحمق قرار دینے لگتے ہیں ۔
کسی قوم میں یہ بیماری جب جڑ پکڑ لیتی ہے تو وہ قوم بے راہ رَو ہوجاتی ہے، وہ خیر خواہوں کو بدخواہ سمجھنے لگتی ہے، قعرِ مذلت میں گرنے کے باوجود وہ اپنے کو علیین پر مقیم باور کرتی ہے، مصائب کے گھیرے میں ہونے کے باوجود وہ اپنے کو مکمل محفوظ قرار دیتی ہے، دشمنوں کے نرغے میں ہونے اور اپنے بے بس ومغلوب ہونے کے باوجود اپنے کو سب سے طاقت ور اور غالب اور دشمن کو سب سے کمزور سمجھتی ہے، نتیجتاً اس قوم پر ادبار مسلط ہوجاتا ہے اور وہ کارگاہِ حیات میں کوئی تعمیری انقلاب تو کجا اپنے وجود کی حفاظت تک سے قاصر رہ جاتی ہے۔
دوسری بیماری احساس کمتری ہے، جو انسان اپنی کمتری اور کہتری کا احساس کرلیتا ہے وہ شکستہ خاطر، مردہ دل، بے حوصلہ، منکسر الارادۃ، اور ناامیدی کا شکار ہوجاتا ہے، اور خود اعتمادی کے جوہرسے محروم ہوجاتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ زندگی میں کوئی کام اور اقدام اس کے بَس کا نہیں ہے، کسی قوم میں جب یہ مرض آتا ہے تو اس کی حیات وحرکت، سعی وعمل سب شل ہوجاتے ہیں ، وہ ذلت کا نشانہ بنالی جاتی ہے، اور ہر لحاظ سے اسے کمزور کردیا جاتا ہے اور اسے لوٹ کھسوٹ لیا جاتا ہے۔
امتِ مسلمہ میں عمومی طور پر یہی مرض موجود ہے، اور اس کے نتائج کھلی آنکھوں سے