انسان اپنی روحانی وجسمانی دونوں تخلیق کے اعتبار سے سب سے ممتاز ومنفرد اور نمایاں ہے، وہ عالم اصغر ہے، اس کے چھوٹے سے جسم میں پوری کائنات نہاں ہے بقول شاعر: ؎
وَ تَزْعَمُ أَنَّکَ جِرْمٌ صَغِیْرٌ
وَفِیْکَ انْطَویٰ الْعَالَمُ الْأَکْبَرُ
تم یہ سمجھتے ہو کہ تم چھوٹا سا جسم اور مختصر وجود رکھتے ہو جب کہ فی الواقع پوری دنیا تم میں چھپی ہوئی ہے، اسی لئے کہا گیا ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ۔
ترجمہ: جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا، خودی کی معرفت کا نتیجہ خدا کی معرفت ہے۔
انسان کچھ پہلوؤں کے لحاظ سے بیحد قوی ہے اور کچھ پہلوؤں کے اعتبار سے بیحد ناتواں ، اس لئے صاحب عقل وہی ہے جو قوت وضعف کے پہلوؤں کو فراموش اور نظر انداز نہ کرے، وہ اپنی قوت، ذہانت اور معلومات پر اکڑ نہ دکھائے اوراپنی برتری کا مدّعی نہ ہو، اور اس کا احساسِ برتری کبر وغرور کی حد تک نہ پہنچے، اسی طرح وہ اپنی کمزوری، بے بسی اور ناتوانی کے پیش نظر اپنے کو حقیر نہ سمجھے اوراس کا احساسِ کمتری ناکامی کی حد تک اسے نہ پہنچائے۔
افراد واقوام کی یہ دو بیماریاں ہوتی ہیں کہ یا تو ان کا احساسِ برتری کبر وتفاخر تک پہونچ جاتا ہے، یا ان کا احساسِ کمتری حقارت وذلت سے جاملتا ہے، کبر وغرور کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی دوسرے کو ذلیل وحقیر باور کرنے لگتا ہے، جن امور پر اسے قدرت نہیں ہوتی ان پر قدرت کے فضول دعوے کرنے لگتا ہے، اپنے دائرۂ کا رو اختیار سے خارج چیزوں میں دخل اندازی کربیٹھتا ہے، جن چیزوں سے ناآشنا ہوتا ہے ان سے آشنائی اور آگاہی کا مدعی ہوجاتا ہے، پھر وہ کسی کے نصائح اور ہدایات پر کان نہیں دھرتا، کسی بڑے کو بڑا نہیں مانتا، اس کے