دوسری طرف عبادت میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ نفس وجسم اور اہل وعیال کے حقوق میں کوتاہی ہو، روایات میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما دن میں روزہ رکھتے اور رات بھرعبادت کرتے تھے، اہل وعیال کے حقوق سے غافل تھے، ان کی اہلیہ کی شکایت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ:
ایسا نہ کرو، روزہ رکھو اور افطار بھی کرو، عبادت بھی کرو اور آرام بھی کرو، تمہارے نفس کا تم پر حق ہے، تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہارے اہل وعیال کا تم پر حق ہے۔ (بخاری ومسلم)
اس طرح کے واقعات مختلف صحابہ کے ہیں ، ہر موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتدال، اور اللہ کے حق کے ساتھ نفس واہل کے حقوق بھی ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔
خرچ اور مصارف میں بھی اعتدال کا حکم ہے، ایک طرف اسراف اور فضول خرچی سے روکا گیا ہے اور دوسری طرف بخل اور ہاتھ روکے رکھنے سے منع کیا گیا ہے، اسی طرح عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے اور یہ تلقین کی گئی ہے کہ ظلم سے بچا جائے، دشمن پر بھی ظلم نہ ہونے پائے، اور دوست کو دوستی کی رعایت میں دوسرے کا حق نہ دیا جائے، اور خواہش نفس کی پیروی نہ کی جائے۔
مختلف احادیث میں تعصب بیجا سے منع کیا گیا ہے، ایک جگہ فرمایا گیا کہ:
تین چیزیں نجات دہندہ ہیں اور تین چیزیں تباہ کن ہیں ، حالت غضب ورضا میں عدل وانصاف، خفیہ وعلانیہ ہر حالت میں خوفِ خدا، فقر وغنی ہر حالت میں میانہ روی نجات کا باعث ہیں ، جب کہ خود پسندی، اتباعِ ہویٰ، بخل وحرص تباہ کن امور ہیں ۔ (معجم اوسط: طبرانی)
قرآنِ کریم امتِ محمدیہ کو ’’امتِ وسط‘‘ اور ’’خیرِ امت‘‘ اسی لئے قرار دیتا ہے کہ اس