کوفہ وبصرہ کے نحویوں کا ختلاف، سیبویہ اورکسائی، متنبی اور جریر وفرزدق کے غالی ناقدین ومادحین کو اسی افراطِ عقیدت ونفرت نے لایعنی اورمضر سرگرمیوں میں مشغول رکھا، امام ابن تیمیہ بھی وہ شخصیت ہیں جن پر اسی غلو اور افراط کی وجہ سے ظلم ہوا، ان کے غالی مادحین نے ان کو سب سے اونچا مقام دیا اور ان کی شخصیت مجروح کی، جب کہ ان کے غالی ناقدین نے ان کو کفر وزندقہ کے الزام میں پھنساکر اسیرزنداں ہونے پر مجبور کیا۔
آج پوری دنیا میں سیاسی سطح پر خصوصاً یہ افراط ہر جگہ نظر آتا ہے، ایک لیڈر کے غالی معتقدین اسے سب سے بڑا نجات دہندہ اور واحد مستحقِ قیادت باور کراتے ہیں اور دوسرے لیڈر کے سلسلہ میں نفرت وعداوت کا خوب اظہار کرتے ہیں ، جب کہ اس کے غالی مخالفین اسے سب سے بڑا مجرم، نااہل اور خائن ثابت کرتے ہیں ، یہی حال مختلف الفکر مشائخ وعلماء کے مریدین وتلامذہ کا بھی ہے، یہی حال اخبارات اورذرائع ابلاغ کا بھی ہے، آج اکثر ذارئع ابلاغ اسلام دشمنی کا جو ثبوت دے رہے ہیں ، وہ اسلام کے تئیں ان کی نفرت کے افراط اور غلو کا واضح ثبوت ہے۔
سیاسی، علمی، فکری اور ادبی ہر سطح پر ہمارے اسی غلو وافراط اور اعتدال سے دوری نے حقائق کو کس قدر مسخ کیا ہے، کتنا ظلم کیا ہے، کتنوں کا حق مارا ہے، کتنا نقصان پہونچایا ہے، دشمنوں کو کتنی کامیابیوں سے نوازا ہے اس کا اندازہ بہت مشکل ہے۔
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اعتدال ہر بھلائی کی جڑ اور بنیاد ہے، اور یہی اسلام کا امتیاز ہے کہ وہ ہر شعبۂ زندگی میں افراط وتفریط سے کنارہ کشی اور اعتدال ومیانہ روی کی تعلیم وتلقین کرتا ہے، اسلام میں ایک طرف پیغمبر کی ذات کے سلسلہ میں افراط وغلو سے منع کیا گیا اور یہ تلقین کی گئی کہ نبی کو خدا کا بندہ ورسول سمجھا جائے، افراط وغلو کرکے اس میں الوہیت کی صفات نہ ثابت کی جائیں ، اور دوسری طرف اسے خدا کے بعد سب سے افضل سمجھا جائے۔