وصواب کو مسخ کیا گیا، خیر کو مٹایا گیا اور ساتھ ہی مسلمانوں کی قوت وشوکت کو ہلایا اور ختم کیا گیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مابین، حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ کے مابین، حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ کے مابین رونما ہونے والے اختلافات اجتہادی بنیادوں پر ہوئے، یہ ممکن تھا کہ انہیں رائے اور فکر کا اختلاف قرار دیا جاتا مگر حضرت علیؓ کی محبت اور نفرت میں افراط اور غلو نے مسلمانوں میں باہم برسر پیکار مختلف فرقوں کو جنم دیا، شیعہ، خوارج وروافض، حامیانِ علیؓ اور مخالفین علیؓ کے مختلف طبقات پیدا ہوئے، اور آج تک ہیں ، اور ان کی لڑائیاں ، خونریزیاں تب سے اب تک جاری ہیں ، اور اس کے لئے کتنا خون بہایا گیا، کتنا ظلم ہوا، شریعت کی کس قدر بے حرمتی ہوئی، اس کا اندازہ مشکل ہے، بنی امیہ اور ان کے مخالفین کے درمیان جو اختلاف تھا وہ بھی مثبت تنقید کے دائرہ میں باقی رہ سکتا تھا مگر اس میں بھی یہی محبت ونفرت کا افراط لڑائیوں ، قتل وظلم اور نہ جانے کتنی تباہیوں اورپستیوں کا باعث بنا۔
سیاسی میدان کے علاوہ علمی میدان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اسی افراط کی وجہ سے کتاب وسنت، فقہ وادب، لغت ونحو کے متعدد بڑے علماء اورائمہ کے سلسلہ میں بے اعتدالیاں سامنے آئیں ، ان کی شہرت کو داغدار کیا گیا اور ان کے وقار کو مجروح کیا گیا، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی شخصیت کو محبت ونفرت کے افراط کے نتیجہ میں شروع سے داغدار کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور آج تک جاری ہے، ان کے مادحین ومحبین کا غالی طبقہ ان کی منقبت میں جھوٹی موضوع احادیث پیش کرکے ان کو بدنام کرتا ہے، دوسری طرف ان کے دشمنوں اور مخالفین کا غالی گروہ ان کو جاہل اور کتاب وسنت سے بے خبر ثابت کرکے ان کو داغدار کرنا چاہتا ہے۔
ائمہ فقہاء اورمحدثین کے باہمی اختلافات کو اسی افراط کے نتیجہ میں حق وباطل کے معرکوں کی شکل میں پیش کیا جاتا رہا ہے اورمناظروں کے سلسلوں نے اس کو مزید تقویت پہونچاکر امت کا نقصان ہی کیا ہے۔