ہے، پوری اسلامی تاریخ اجتماعی احساسات کے تحت اہل اسلام کی پیش کردہ قربانیوں سے منورہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حد سے زیادہ سادہ زندگی صرف اسی لئے گذاری کہ آرام وراحت پہلے ان کی سب رعایا کو میسرآجائے، واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار کھانا کھارہے تھے، اسی دوران عتبہ بن ابی فرقد آئے، حضرت عمرؓ کے کہنے پر عتبہ کھانے میں شریک ہوئے، کھانا اتنا موٹا تھا کہ عتبہ سے نگلا نہیں جارہا تھا، انہوں نے عرض کیا اے امیر المؤمنین! بہتر ہو کہ آپ چھنا ہوا آٹا استعمال کریں ، اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کیا سب مسلمانوں کو چھنا ہوا آٹا دستیاب ہے، عتبہ نے کہا نہیں سب کو تو میسر نہیں ہے، حضرت عمرنے فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمام لذتیں دنیا ہی میں حاصل کرلوں ۔
یہ واقعہ ان کے ایثار، خوف آخرت، اجتماعیت کے احساس وشعور کا اور ذاتی مصلحت ومنفعت کے حصول سے یکسر دوری اوربیزاری کا ثبوت ہے، حضرت عثمانؓ نے قحط کے عالم میں دسیوں اونٹوں پرلدا ہو ا غلہ جو بہت نفع کے ساتھ فروخت ہوسکتا تھا، مفت لوگوں میں تقسیم کردیا تھا، تمام صحابہ نے ہر موقعہ پر دوسروں کا تعاون کیا، دوسروں کے نفع کو مقدم رکھا، دوسروں کے بھلے کے لئے اپنا ذاتی نقصان گوارا کیا، اسی وصف امتیازی کا ذکر قرآن نے کیا کہ:
وَیُؤْثِرُوْنَ عَلیٰ أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۔ (الحشر/۹)
ترجمہ: وہ دوسروں کو اپنی ذات پرترجیح دیتے ہیں خواہ خود اپنی جگہ کتنے ہی محتاج کیوں نہ ہوں ۔
یہ سب ان کے اجتماعی شعور کی دلیل ہے، صحابہ اور اسلافِ امت کے ایثار واجتماعیت کے شعورکے بے شمار نمونے تاریخ میں محفوظ اور لائق تقلید ہیں ۔
اہل اسلام اورموجودہ حالات میں خاص طور پر اہل عرب اور ان میں بطور خاص عرب حکمرانوں کو یہ حقیقت ذہن نشین کرنی ہوگی کہ جب تک انانیت کی جگہ اجتماعی شعور بیدارنہیں