اورمستقل کوشاں رہتے ہیں اورسب کچھ اپنا حق لازم سمجھ کر انجام دیتے ہیں ، دوسروں کے دکھ درد میں شریک رہتے ہیں ۔
عالمی طور پر اقوام کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ انانیت پسند افراد بے پناہ ہیں ، اور اجتماعی شعور کے حاملین خال خال ہیں ، بگاڑ کا عام ہونا اور صلاح وفلاح کا کم یاب ہونا اس کا واضح ثبوت ہے، ظالموں کا معصوموں وبے قصوروں کو نشانہ بنانا اسی وجہ سے ہے، موجودہ عالمی منظرنامے میں امریکہ کا افغانستان کو تباہ کرنے کے بعد عراق پر حملہ آور ہونا اور پٹرول کی دولت پر مکمل تسلط کے ارادہ سے جنگ چھیڑنا اسی خود پسندی کی فکر کا واضح اور تازہ مظہر ہے، اور عرب وغیر عرب ممالک کی امریکہ کی خاموش تائید وحمایت اور عراق کی مدد وتعاون سے دریغ اور اس طرح حق کی مدد نہ کرکے باطل کی خاموش تائید اور اس کے سامنے سپر اندازی کا بھی اصل سبب اپنے اقتدار وذاتی مفادات کا تحفظ ہے جو خود پسندی کے سوا اورکچھ نہیں ، فلسطین کے مظلوموں کے حق میں عملی اقدامات پر قدرت اور اتحاد ی گروہ کی تشکیل کے ذریعہ اسرائیلی جارحیت کے سدّباب کی استطاعت کے باوجود عرب حکمرانوں کا پس وپیش اور اپنے اقتدار میں مست وغرق رہنا بھی اپنے مفاد ات کی حفاظت اور قربانیوں ومشکلات کا تحمل کرنے کے جذبہ سے محرومی کی بنیاد پر ہے جو ان کی انانیت کی کھلی دلیل ہے۔
یوں تو ہرفرد بشر کے مزاج میں اجتماعی احساس انفرادی شعور پر غالب رہنا چاہئے کہ یہی انسانیت کی حقیقی روح ہے،لیکن اہل اسلام جو ابدی وسرمدی دین کے حامل اور علم بردار ہیں ، ان کا یہ دینی ومذہبی، اخلاقی وعقلی فرض ہے کہ وہ سب سے آگے بڑھ کر اجتماعی احساس کو بیدار وغالب کریں ، ان کے دل کی ہردھڑکن اور دماغ کی ہر فکر اور جسم واعضاء کی ہر نقل وحرکت اورہر قول وعمل، بلکہ گفتار ورفتار سب اسی جذبہ سے سرشار ہو۔
ان کی روشن تاریخ کا ہر صفحہ اس جذبہ سے سرشار افراد کی عملی سرگرمیوں سے بھرا ہوا