اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ذاتی وانفرادی ملکیت کا خوب احترام ولحاظ ملتا ہے مگر قومی وعوامی ملکیت کا برائے نام بھی احترام نہیں ملتا، سڑک اور روڈ پوری قوم کی ملکیت ہے، مگر بہت سے مقامات پر اسے ذاتی چیز سمجھ کر اس پر گندگیوں اور غلاظتوں کا انبار پھینک دیا جاتا ہے، یہ انانیت وخود پسندی کے غلبہ اور اجتماعی احساس کے فقدان کی ایک معمولی مثال ہے، جب کہ دوسرے مقامات پر ایسا نہیں ہوتا، بلکہ سڑکوں کو قومی چیز سمجھ کر اس کی صفائی کا اہتمام ہوتا ہے اور اسے گندگی سے دور رکھنے کی فکر ہوتی ہے۔
شیخ محمد عبدہ کا یہ واقعہ منقول ہے کہ ایک بار وہ سفر پر تھے، ان کے رفیق سفر نے راستہ کے کسی درخت سے گلاب کا پھول توڑ لیا، یہ منظر دیکھ کر شیخ رونے لگے، سبب دریافت کیا گیا تو بتایا کہ میں نے ایک انگریز عورت کو دیکھا کہ دورانِ سفر اس کا چھوٹا بچہ راستہ سے گلاب توڑنے چلا تو اس نے بچہ کو روکا اور سختی سے ڈانٹا اوریہ کہا کہ یہ پھول ہر مسافر کی ملکیت ہے، یہ تنہا تمہای ملکیت نہیں ہے،اسے باقی رہنا چاہئے تاکہ آج کے اور کل کے اور اسکے بعد کے مسافر اس کی خوشبو اور رونق سے لطف اندوز ہوسکیں ، شیخ نے کہا کہ افسوس اور رونا اس کا ہے کہ ہم پر انانیت کا غلبہ ہے اورہم اجتماعیت اور مفادِ عام کے احساس سے ناآشنا ہیں ۔
انانیت پسندوں کی طرف سے نیک کاموں میں ، غریب ومحتاج کے تعاون میں بھی انانیت وخود پسندی کا مظاہرہ ہوتا ہے، ان کی جیب سے پیسہ جب ہی نکلتا ہے جب فقیر بالکل جم اورچمٹ جائے اور واپسی پر کسی صورت آمادہ ہی نہ ہو، اورپھرجب پیسہ نکل بھی جاتا ہے تو وہ اپنی انا کی تسکین اور ریا کاری کے مقصد سے سب کے سامنے برسرعام فقیر کے ہاتھ میں تکبر کے انداز میں دیتے ہیں ، ان کی یہ ساری حرکتیں ان کی انانیت کا نتیجہ ہوتی ہیں ، جب کہ اجتماعیت کا احساس رکھنے والے افراد بڑی تواضع وہمدردی کے ساتھ نوعِ انسانی کے ہر واقعی ضرورت مند کے لئے دل گیر ہوتے ہیں اور حسب المقدور تعاون کرتے کراتے ہیں