’’خدایا! مجھے بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر، تیرے سوا کوئی بہترین اخلاق کی راہ نہیں دکھاسکتا‘‘۔
احادیث میں بارہا حسن اخلاق کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے، کہیں اسے کمال ایمان بتایا گیا ہے کہیں اسے قیام لیل اور دن کے روزوں کے مساوی قرار دیا گیا ہے اور کہیں اسے قیامت کے دن میزانِ عمل کی سب سے وزنی اور بھاری چیز کہا گیا ہے، کہیں اسے خدا ورسول کی محبت وقرب کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اللہ کے اخلاق اختیار کرو، اس طرح اخلاق حسنہ کی تلقین کی گئی ہے، در اصل اخلاق حسنہ صفاتِ خداوندی کا پَرتو اور مَظہر ہیں اور اخلاق حسنہ ایمان کی تکمیل اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی صفات کاملہ کے ادنیٰ مظاہر ہیں ، اقبال نے بھی یہی واضح کیا ہے کہ ایک مؤمن مختلف ومتضاد اخلاق وصفات کا حامل ہوتا ہے جو در اصل اللہ کی صفات واحوال کے مظاہر ہوتے ہیں مثلاً کشادہ قلبی، حلم ودرگزر میں وہ اللہ کی صفت غفار کا پَرتو ہے، اور دین کے سلسلہ میں شدت اور باطل پر غضب میں وہ اللہ کی صفت قہار کا پَرتو ہے اور پاکیزگی میں صفت قدوس کا مظہر ہے وغیرہ: ؎
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں
حسنِ اخلاق کی تاثیر یہ ہوتی ہے کہ وہ دلوں کو فتح کرتا ہے اور طوفانوں کے رخ موڑ دیتا ہے، تاریخ اس محیر العقول تاثیر کے نمونوں سے پر ہے، فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرکین مکہ کے ساتھ حسن اخلاق اور عفو ودرگذر کا معاملہ اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ لوگ جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے اور کایا پلٹ گئی۔
اخلاق کی طاقت نے ہر دور میں بے شمار معرکے سر کئے ہیں ، لاتعداد موقعوں پر سربلند