امتیاز حاصل ہے کہ اس نے اپنے پیروؤں کو اتنی اخلاقی تعلیمات دے دی ہیں جو ان کو راہِ راست سے بھٹکنے سے روک دیں ، یہی وجہ ہے کہ ان اخلاقی تعلیمات نے اصلاح کا وہ کام کیا ہے جو قوانین بھی نہ کرسکے۔
اسلام اس شعبے میں طبع انسانی کے ان نازک وباریک مسائل پر توجہ دیتا ہے جو اپنی نزاکت ولطافت کے باوجود حیات انسانی پر دیرپا اثر ڈالتے ہیں ، فی الواقع انسان کی ظاہری زندگی کے اعمال اس کے باطنی اخلاق ہی کا پَرتو ہیں ، اسی لیے اسلام نے ان کی اصلاح کو ہدف بنایا تاکہ باطن کے سدھار کے بعد ظاہر بھی درست ہوسکے، چنانچہ قرآن نے اعلان کردیا کہ:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَا۔ (الشمس: ۹-۱۰)
ترجمہ: جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور سنوارا وہ فلاح یاب ہوگیا اور جس نے اسے (گناہوں میں ) دبادیا وہ ناکام ہوگیا۔
اسلام نے جو عبادات فرض کی ہیں ان کا بھی ایک اہم مقصد اصلاح اخلاق ہے، نماز کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ برائیوں و بے حیائیوں سے روکتی ہے، روزہ کا مقصد تقویٰ وشکر کی کیفیت پیدا کرنا بتایا گیا ہے، زکوۃ کے ذریعہ انسانیت کی ہمدردی ومد د کا سبق دیا جاتا ہے، اس لحاظ سے ہر عبادت کا اساسی مقصد اخلاق کی پاکیزگی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کے بعد اخلاقِ حسنہ کو سب سے زیادہ مقدم قرار دیا ہے، قرآن میں انہیں اہل ایمان کو فلاح یاب قرار دیا گیا ہے جو اپنے ایمان کے بعد اخلاق کی اصلاح کرلیں ، مثلاً نماز میں خشوع، لغویت سے اجتناب، آبرو کی حفاظت، بے حیائی سے دوری، وعدہ ومعاہدہ کی پاس داری، امانتوں کی ادائیگی وغیرہ کی پابندی کریں ، قرآن میں جابجا اہل ایمان کے اوصاف میں اخلاق حسنہ کا ذکرآیا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کتب حدیث میں آتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ: