ہجرت کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے باہر دشمنوں کا قافلہ موجود تھا کہ آپ کے نکلتے ہی نعوذ باللہ کام تمام کردیا جائے، مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاکر فرمایا کہ تم میری چادر اوڑھ کر میرے بستر پرسوجاؤ، میں تمہارے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان، میں ہمہ تن آمادہ ہوں ، پھر حضرت علیؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سوئے اور چند دنوں بعد قبا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آملے، قرآن کریم کی اس آیت کے اولین مصداق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاۃِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ رَؤٗفٌ بِالْعِبَادِ۔ (البقرۃ: ۲۰۷)
ترجمہ: کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپادیتے ہیں ، ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے۔
کوہِ صفا پر چڑھ کر توحید ورسالت کی تصدیق کی جو دعوت اور پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مکہ والوں کو دیا تھا اوراس کا ردّ عمل انکار، لعن طعن اور بدگوئی کی شکل میں سامنے آیا تھا، پورے مجمع میں صرف حضرت علیؓ تھے جنہوں نے اس پیغام کو بے چون وچرا قبول کرلیا تھا اورپھر یہی ان کے رگ وپے میں پیوست اور اُن کے جسم کے ریشے ریشے میں سماگیا تھا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت پر اولین توجہ فرمائی تھی، وہ ان میں اخلاص، اسلامیت، استقامت دینی کے ساتھ شجاعت، خطر پسندی اور عقیدہ وحق کی راہ میں ہرقربانی بے دریغ پیش کرنے کا جذبۂ بے تاب پیدا کرنے کی لئے ہمہ وقت کوشاں رہا کرتے تھے، نوجوان صحابی حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: