یٰٓا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ۔
(الصافات: ۱۰۲)
ترجمہ: آپ حکم الٰہی کی تعمیل کیجئے، آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔
اطاعت وقربانی کی یہ مثال تاریخ عالم کی منفرد مثال ہے۔
حضرت لوط حضرت ابراہیم علیہما السلام پر سب سے پہلے ایمان لائے، اس وقت وہ نوجوان تھے، پھر نبی بھی بنائے گئے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو عین عنفوان شباب میں مختلف مصائب ومحن سے گزرنا پڑا،قید وبند کی صعوبتوں سے سابقہ پیش آیا، مگر ان کا صبر وثبات بے نظیر تھا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی نعمتوں سے دنیا میں بھی سرفراز فرمایا، ملک کے خزانے ان کے سپرد کردیئے گئے۔
سورۂ کہف میں جن اہل حق کے ثبات ایمانی اور رسوخِ دینی کا ذکر ہے وہ قرآن کے بقول:
إِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ آمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدیً، وَّرَبَطْنَا عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ إِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ، لَنْ نَّدْعُوَ مِنْ دُوْنِہٖ إِلٰہاً۔ (الکہف: ۱۳-۱۴)
ترجمہ: چند نوجوان تھے جو اپنے رب پرایمان لے آئے تھے اورہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخش دی تھی، ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کردیئے جب وہ اٹھے اور انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پوری جوانی صبر وعزیمت کے کارناموں سے لبریز ہے،