اسلام تمام انسانوں خصوصاً نوجوانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ ایمانی رسوخ پیدا کریں ، کفر وفسق اور عصیان وطغیان سے گریزاں ہوں ، طاعات کی طرف راغب ہوں ، بلکہ اسلام کہتا ہے کہ طاعات الٰہیہ میں منہمک نوجوان قیامت کے روز عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوگا جہاں اس کے سوا کوئی اور سایہ میسر نہ آئے گا۔
تاریخ کی شہادت یہی ہے کہ اصلاح وصلاح کی تمام تر تحریکات، کوششوں اور سرگرمیوں میں نوجوانوں کا رول سب سے اہم اور نمایاں رہتا ہے، سیدنا ابراہیم خلیل اللہ نے نوجوانی ہی میں اپنی قوم کے برے عقائد، بت پرستی، اصنام تراشی، گمراہی اور بدکرداری کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا اور بتوں کو پاش پاش کرنے کے بعد قوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ حقیقت واضح کی تھی کہ:
أَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَایَنْفَعُکُمْ شَیْئًا وَّلَا یَضُرُّکُمْ، أُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ۔ (الانبیاء: ۶۶)
ترجمہ: یہ وہ بت ہیں جن میں نہ نفع پہنچانے کی صلاحیت ہے اور نہ ضرررسانی کی، تم پر تُف ہو اور تمہارے ان ہاتھوں سے تراشے ہوئے بے جان معبودوں پر تُف ہو، تم عقل سے محروم ہو۔
حق گوئی کی سزا ان کو آگ کے الاؤ میں ڈال کردی گئی، مگر ان کے صبر واستقامت میں ذرا بھی کمی نہ آئی اور پھر اللہ کے حکم سے وہ مشتعل آگ ان کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی بن گئی۔
سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے بارے میں ان کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا تھا کہ ان کو وہ ذبح کررہے ہیں ، یہ خدا کا حکم تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام نوجوان تھے، مگر ان کے دل میں اطاعتِ الٰہی کا جذبہ موجزن تھا، انہوں نے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ ابا جان: