دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی دوسرے کو حاصل شدہ نعمت کے بارے میں یہ تمنا کرے کہ یہ نعمت مجھے مل جائے، لیکن چونکہ یہ نعمت اسے دوسرے سے سلب کئے جائے بغیر مل نہیں سکتی ہے اس لئے ضمناً اس کی یہ آرزو بھی ہوتی ہے کہ صاحب نعمت سے یہ نعمت سلب کرلی جائے، یہ صورت بھی قابل مذمت ہے، ہاں اگر صاحب نعمت سے سلب نعمت کی تمنا نہ ہو بلکہ اس جیسی نعمت خود حاصل ہونے کی آرزو ہو تو یہ بالکل معیوب نہیں ہے بلکہ دینی امور میں پسندیدہ ہے۔
حسد کے اسباب ومحرکات کا تجزیہ واضح کرتا ہے کہ اس میں مختلف امور کار فرما ہوتے ہیں ، سب سے بنیادی سبب بغض وعداوت ہے، اکثر دوسرے سے جذبۂ عداوت ہی حسد کی راہ ہموار کرتا ہے اور علماء نے لکھا ہے کہ بغض وعداوت کی وجہ سے پیدا ہونے والا حسد عام ہوتا ہے، اس میں مساوات کی قید نہیں بلکہ ایک ادنیٰ شخص اعلیٰ سے اعلیٰ شخص کا بدخواہ ہوسکتا ہے، تعلیمی میدانوں میں تجربات رکھنے والے افراد کے سامنے بغض وعداوت کے نتیجے میں پیدا شدہ حسد کے نمونے اور مظاہر جابجا آتے ہیں ، کچھ نہ جاننے والے افراد عموماً ہمہ دانی کے مدعی اور جہل مرکب میں مبتلا ہوکر واقعتاً علمی صلاحیتوں سے مالا مال قابل رشک وفخر اور لائق احترام وقدر افراد سے حسد کرنے لگتے ہیں اور ان کی علمی ترقی میں حائل ہونے لگتے ہیں ۔
حسد کا ایک سبب جاہ پرستی ہے، یہود کو اہل اسلام سے اس بنیاد پر بھی حسد تھا کہ وہ اہل اسلام کو اپنے اقتدار کی راہ کا روڑا سمجھ رہے تھے، آج بھی مختلف شعبہائے حیات میں اس کے نمونے ملتے ہیں ، حسد کے دیگر اسباب کبر، تعلّی، ذاتی فخر کا خیالی تصور، خبث باطن، بد طینتی وغیرہ آتے ہیں ۔
کسی عالم سے پوچھا گیا کہ فلاں صاحب آپ سے ناراض رہتے ہیں اورآپ کی مذمت کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ میرے سگے رشتہ دار ہیں ، پڑوسی بھی ہیں اور ہم پیشہ بھی ہیں ، یعنی قرابت، ہمسائیگی اور ہم پیشگی یہ سب اسباب حسد بن جاتے ہیں ۔