سورۃ المائدہ کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں مولانا آزادؒ نے ایک اہم نکتہ بیان کیا ہے، لکھتے ہیں کہ:
’’اگر لوگ گمراہ ہوجائیں تو ان کی گمراہی تمہارے لئے دلیل وحجت نہیں ہوسکتی کہ تم کہو! سب گمراہ ہورہے ہیں تو اکیلی جان ہم کیا کریں ، ہر آدمی پر ذمہ داری خود اس کے نفس کی ہے، دوسروں کے لئے وہ ذمہ دار نہیں ، اگر ساری دنیا گمراہ ہوجائے جب بھی تمہیں حق پر قائم رہنا چاہئے‘‘۔ (ترجمان القرآن:۲/۶۷۸)
آیت کا منشا یہ ہے کہ آدمی اپنی اصلاح کو مقدم کرے، یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسروں کی اصلاح کی فکر ہی نہ ہو، سیدنا صدیق اکبرؓ نے اسی کوواضح کیا ہے، فرمایا کہ لوگو! تم یہ آیت پڑھ کر یہ سمجھتے ہو کہ دوسروں کی فکر بالکل نہ کی جائے، بس اپنی ہی فکر ہو، یہ غلط مطلب ہے، میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگوں کا یہ حال ہوجائے کہ وہ برائی دیکھ کر اسے مٹانے کی اور ظالم کو ظلم کرتا دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر ظلم سے روکنے کی کوشش نہ کریں تو بعید نہیں کہ اللہ انہیں اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔
معلوم ہوا کہ آیت کا منشا یہ ہے کہ اپنی اصلاح کا عمل مقدم ہو، پھر دوسروں کی اصلاح کا کام شروع کیا جائے، یہ ترتیب ملحوظ رہے گی تو اس کی تاثیر نمایاں ہوکر رہے گی، انبیاء، صحابہ وسلف کی تاریخ میں یہ ترتیب نمایاں نظر آتی ہے، انہوں نے جس چیز کا بھی حکم دیا سب سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا، دوسروں کی بقدر وسعت اصلاح مطالباتِ دین ہی کا حصہ ہے، آیت کا مقصود دوسروں کی اصلاح سے منع کرنا نہیں صرف اس کے مبالغہ آمیز تخیل میں اعتدال پیدا کرنا مقصود ہے۔
بقول مفسر دریا بادریؒ:
’’مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کو اچھی بری بات بتاؤ نہیں ، بلکہ یہ ہے کہ دوسروں کی عیب چینی اورکھوج میں نہ پڑے رہو، امر بالمعروف نہی عن المنکر تو بجائے خود ایک انفرادی