بقول مولانا دریابادیؒ:
’’آیت میں ایک زبردست اصول یعنی شخصی ذمہ داری کا اثبات ہے اور ان لوگوں کا ابطال ہے جو انفرادیت کو اجتماعیت میں گم رکھنا چاہتے ہیں ‘‘۔ (تفسیر ماجدی:۱/۹۷۹)
اسی مضمون کو دیگر آیات میں بھی واضح فرمایا گیا ہے، چند آیات ملاحظہ ہوں :
وَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ، أَنْتُمْ بَرِٓیْؤٗنَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِٓئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۔ (یونس/۴۱)
ترجمہ: اگر یہ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو، اور جو کچھ تم کررہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں ۔
قُلْ أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ، فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ۔ (النور/۵۴)
ترجمہ: آپ فرمادیجئے کہ اللہ ورسول کے تابع فرمان بن کر رہو، لیکن اگر وہ رخ پھیر لیں تو وہ خوب سمجھ لیں کہ رسولؐ پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اس کے ذمہ دار رسول ہیں ، اور تم پر جس فرض کا بار ڈالا گیا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو‘‘
ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ:
مَنْ قَالَ ہَلَکَ النَّاسُ فَہُوَ أَہْلَکُہُمْ۔ (مسلم شریف)
ترجمہ: جو یہ کہتا ہے کہ لوگ ہلاک وبرباد ہوگئے وہ سب سے زیادہ ہلاک وبرباد ہونے والا ہے۔
یعنی جس کا کام اپنے اعمال کی فکر کے بجائے محض دوسروں کی فکر، دوسروں پر تبصرہ، دوسروں کی حالت زار کا تذکرہ اور ہمہ وقت لوگوں کی تباہی وخرابی کا بیان ہو وہ خود سب سے بدتر حالت میں ہے، اسے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی اصلاح کی فکر پہلے کرنی چاہئے۔