تکذیب، رسولوں کی مخالفت، بتوں اور معبودانِ باطل کی پرستش، کتب سماویہ کی توہین وبے حرمتی، ہمہ وقت خونریزیوں ، سود خوری، شراب نوشی اور تمام جرائم کے پس پردہ یہی اتباعِ ہویٰ کا عنصر کار فرما ہوتا ہے، انبیاء ورسل کی راہِ دعوت میں یہ عنصر بارہا روڑا بنتا رہا ہے، قرآن میں اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے:
أَفَکُلَّمَا جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَہْویٰ أَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقاً کَذَّبْتُمْ، وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ۔ (البقرۃ: ۸۷)
ترجمہ: پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا تو تم نے اس کے مقابلہ میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کرڈالا۔
قرآن کریم میں خواہش پرست انسان کو اس کتے سے تشبیہ دی گئی ہے جس کی ہمہ وقت لٹکتی زبان اور ٹپکتی رال کبھی سرد نہ پڑنے والی آتشِ حرص کی خبر دیتی ہے، دنیا پرست اور نفس پرست انسان جب ایمان کی رسی تڑاکر بھاگتا اورنفس کی اندھی خواہشوں کے قبضہ میں اپنی لگام اور باگ دیدیتا ہے تو وہ پھر کتے کی حالت کو پہونچے بغیر دَم نہیں لیتا، وہ ہمہ تن شکم اور ہمہ تن شرمگاہ ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ:
لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہُ تَبَعاً لِمَا جِئْتُ بِہٖ۔
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی ہوائے نفس میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع نہ ہوجائے۔
مطلب یہ ہے کہ تمام تر طبعی میلانات وقلبی رجحانات تعلیمات وہدایاتِ نبوت کے زیرِ فرمان ہوجائیں تبھی ایمان کی روح، برکت، فیض، قوت اورنور حاصل ہوسکتا ہے،ہوائے نفس کو ہدائے نبوت کے تابع کیا جائے تبھی ایمان کا نور حاصل ہوتا ہے، حضرت علی کرم اللہ