روحانی قوت کے ذریعہ دوسروں سے اسے ممتاز کرتا ہے، اس کی وسعت وآفاقیت کے ذریعہ رنگ ونسل اور وطن کے امتیازات کی جڑکاٹ دیتا ہے، اسے مساواتِ حقیقی کا علمبردار بنادیتا ہے، مؤمن صادق کے پاس زندگی کا ایک پیام ہوتا ہے جس کے تحت وہ زندگی گذارتا ہے، زمانہ کتنا بدل کیوں نہ جائے، تصورات واقدار کتنے تبدیل کیوں نہ ہوجائیں پر اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، وہ جوں کا توں اپنے نظام پر کار بند رہتا ہے۔
مؤمن صادق اپنے انسانی وجود کے لحاظ سے تو تمام انسانوں کی طرح ہوتا ہے، طبعی قانون کا وہ بھی سب ہی کی طرح تابع ہوتا ہے لیکن اس کا ایمانی وجود اسے روشن، نمایاں اور ممتاز کردیتا ہے، یہی چیز اسے جاودانی عطا کردیتی ہے، اس کے پاس زندۂ جاوید پیام ہوتا ہے، اس کے سینے میں ایک زندہ ٔجاوید امانت مستور ہوتی ہے، اس کی زندگی کا ہر لمحہ ایک زندۂ جاوید مقصد کے لئے وقف رہتا ہے: ؎
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اُس کی اذانوں سے فاش سر کلیم وخلیل
اس کا نظریۂ زندگی یہ نہیں ہوتا کہ خود کو ماحول وحالات کے تابع کردیا جائے بلکہ زمانہ وماحول اگر ناسازگار ہو تو اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا جائے، معاشرہ راہِ راست سے ہٹا ہوا ہو تو اس سے جنگ کی جائے، اور راہِ راست سے سرِ مو انحراف کو کبھی گوارا نہ کیا جائے، زندگی کی غلط وفاسد اقدار سے کبھی مصالحت ومفاہمت نہ کی جائے ان سے نبرد آزما ہوا جائے، اور بگڑی ہوئی قدروں کی اصلاح کی جائے۔
مؤمن صادق کی اندرونی وبیرونی دونوں زندگی ہر وقت وہر آن عمل، حرکت، محبت، انسانیت اور اخلاق عالیہ سے لبریز رہتی ہے، وہ سراسر عمل ہوتا ہے، وہ کردار کا غازی ہوتا ہے۔
انبیائے کرام نے ہر دور میں ایسے ہی افراد پر مشتمل ایک صالح معاشرہ تیار کیا، اور