انبیاء کے بعد صحابہ وتابعین اورمجددین ومصلحین نے ہردور میں یہی کام کیا ہے، اورآج بھی اس کی سخت ضرورت ہے۔
آج ہمارا ایک بہت بڑا المیہ ایسے کامل انسانوں اور سچے مسلمانوں سے محرومی ہے جو باضمیر اورسراپا عمل وحرکت ہوں ، جو کبھی خریدے نہ جاسکتے ہوں ، جنہیں کسی خوف سے دبایا نہ جاسکتا ہو، جو غلط قدروں سے کبھی سمجھوتہ (Compromise) کرنے پر آمادہ نہ ہوسکیں ، اور جن کا وجود باطل کے لئے ہمیشہ ایک چیلنج ثابت ہوتا رہے۔
دشمنانِ اسلام نے اپنی تخریبی منصوبہ بندیوں کے ذریعہ ہمہ نوعی اسباب ووسائل کی بے پناہ قوت سے اپنا سارا زور اسی پر صرف کردیا ہے کہ مسلمانوں میں ایسے کامل افراد دوبارہ ابھرنے نہ پائیں ، مغربی نظام معاشرت اور نظام تعلیم کے ذریعہ، میڈیا اورذرائع ابلاغ کی مدد سے اور اقتصادی قوتوں کا تمامتر استعمال کرکے دشمنوں نے مسلمانوں میں وہ مادّی نقطۂ نظر پیدا کرنے پر توجہ دی جو ان کو بلند اخلاقی اقدار اور خود اعتمادی سے محروم وتہی دست کردے، ان کی خواہش یہ رہی کہ: ؎
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
دشمنوں کی ان کوششوں اور خواہشوں کو کافی کامیابی بھی میسر آئی ہے، تاہم تمامتر بگاڑ اور فساد کے باوجود، عمل اور پیہم عمل، اخلاص اور جاں فشانی سے ساری دشمنانہ سازشیں اور کاوشیں ناکام بنائی جاسکتی ہیں ، شرط یہ ہے کہ ایمان صادق وراسخ کی روح سے معمور افراد اس کام کا بیڑا اٹھائیں اور پورے معاشرہ میں ایمان کامل کی لہر دوڑانے میں اپنی ہر ممکن کوشش صرف کردیں ، مخلصانہ کوششوں کی مقبولیت کی ضمانت قرآن وحدیث نے لی ہے، اور اس سے سچی ضمانت کوئی اور کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔
mvm