پہونچانے کے اہم عناصر ہیں ، جب کہ اہل یورپ کی نگاہ میں انسان کامل وہ ہے جو حد سے زیادہ مادّہ پرست، شہوت پرست، ملحد وبے دین ہو، بعض مغربی مفکرین نے انسان کامل کا دارومدار قوت پر رکھا ہے کہ جو شخص قوت، مردانگی، بہادری، اقدام ودلیری جیسے اوصاف کا حامل ہو وہی کامل انسان ہے، تواضع، رحمدلی، منکسر المزاجی، اقدام سے گریز ناقص انسان کی علامتیں ہیں ، کا ملیت کے لئے قوت ارادہ اور سختی ضروری ہے، جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرلیا جائے اسے کرکے ہی چھوڑا جائے، کسی پر رحم وترس نہ کھایا جائے، اپنے ارادوں کی تنفیذ کے بعد اس پر ہرگز نادم وپشیمان نہ ہوا جائے، گویا کامل انسانیت طاقت، سختی، تندرستی، جسمانی ومادّی قوت، اورسنگ دلی میں منحصر ہے، اب جو نظامِ حیات نرمی، شفقت، محتاجوں وپریشان حالوں پر مہربانی کی دعوت دیتا ہے وہ ناقص انسانیت کی دعوت دیتا ہے، اور مجبور وبیمار، غریب ومحتاج، کمزور وذلیل، اورنرم ومتواضع انسان کامل انسانیت کی راہ میں حائل روڑے ہیں جنہیں ہٹادینا چاہئے۔
ان کج فکر مفکرین نے اپنی اس تشریح کی روشنی میں قوم کو اس طرف بلایا ہے کہ پوری توجہ ایسے کامل انسان کی نشو ونما پرصرف کی جائے، اس کے لئے غرباء ومحتاجین کو پس پشت ڈال دیا اورقربان کردیا جائے، اصل مقصود مذکو رہ بالا اوصاف کے حامل کامل انسانوں کی ایک کھیپ تیار کرنا ہے۔
گویا مساوات کی حقیقی روح، نرمی ومہربانی کے اعلیٰ اخلاقی اصول واقدار، اوروحدتِ امت کے گراں مایہ جوہر سے اِس ناقص فکر کا دامن بالکل خالی ہے، اور اس میں مادّی واقتصادی عارضی پہلوؤں کے سامنے اصل روحانی پہلو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے۔
انسان کامل کی راست تصویر وہی ہے کہ اس کی زندگی کے مادّی وروحانی دونوں پہلوؤں میں روحانی پہلو غالب ہو، مگر مادّی پہلو بالکل نہ ہو یہ افراط ہے جو اعتدال سے ذرا بھی میل نہیں کھاتا، واقعہ یہ ہے کہ مؤمن صادق اور انسانِ کامل ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں ، توحیدِ خالص کا عقیدہ انسان کو بندۂ انسان اوربندۂ مال وزربننے سے روکتا ہے، اس کی