ٹریفک نظام کی مخالفت کی صورت میں اسے لاحق ہوگا، یہ سزا قید، جرمانہ وغیرہ مختلف شکلوں میں ہوتی ہے جس سے بچنے کی خواہش انسان کو ٹریفک قانون کی مکمل رعایت کا پابند بنادیتی ہے۔
دوسری طرف داعی اور معلم کے احکام کی تعمیل نہ کئے جانے کا عام سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی نقد دنیوی نقصان اور مادّی خسارہ سامنے نہیں آتا، قرآنی بیان کے مطابق یہ حقیقت تو ناقابل انکار ہے کہ انسان پرمصائب وحوادث کا نزول ان کے اپنے برے کرتوت اوربے راہ رویوں کے نتیجہ میں ہوتا ہے، لیکن احساس اورحقیقت تک رسائی کی دولت اور نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت ہر کِہ ومِہ کو نہیں خاص لوگوں کو ہی عطا ہوتی ہے، اس لئے عام طور پر انسان اس پر غور نہیں کرتا کہ اس پر مصیبتیں کیوں آئیں ، اسباب کی جستجو کے بعد اس کے ازالہ کی فکر کے بجائے وہ جزع فزع پر اتر آتا ہے، اپنی بے بصیرتی کی بنیاد پر وہ داعی ومعلم کی دعوتِ خیر اور تعلیمِ خیر پر عمل نہیں کرتا اور اسے اپنی اس بے عملی میں کوئی ظاہری نقصان نظر نہیں آتا، نتیجۃً وہ اپنی گناہوں میں ملوث زندگی میں مست ودیوانہ رہتا ہے ااور خیر وحق کی طرف اپنی عنان توجہ نہیں موڑتا، حالانکہ اگر وہ دلِ بینا اور دیدۂ عبرت نگاہ کا صحیح استعمال کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ خیر سے دوری، بے راہ روی، اور بدعملی انسان کو جہنم کے اس ہولناک ودردناک عذاب کی طرف کشاں کشاں لے جارہی ہے جس کو دنیاوی سزاؤں اورمصائب سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے، اور جو چند روزہ نہیں ؛ بلکہ دائمی اورابدی ہے، اگر اس دائمی عذاب کا احساس آدمی کو ہوجائے تو وہ یک لخت ساری بدعملیوں سے گریزاں اور کنارہ کش ہوجائے، عذابِ آخرت کے سوا دنیوی مصائب بھی چونکہ انسان کے اپنے عمل کے نتیجہ میں آتے ہیں ، اس لئے اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آج دعوتی وتعلیمی سرگرمیوں کے بے اثر ہونے کی اصل وجہ ہماری بے حسی اور صحیح شعور سے محرومی ہے، دنیوی رونقوں میں بدمستی اور مادّ ی دولتوں کی بے پناہ حرص نے خوفِ خدا، عذابِ آخرت وغیرہ کا احساس ہی سلب کرلیا ہے، احساس کا خاتمہ سب سے بڑی محرومی ہے ؎